وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدْنَاهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَشُهُبًا
اور یہ کہ بے شک ہم نے آسمان کو ہاتھ لگایا تو ہم نے اسے اس حال میں پایا کہ وہ سخت پہرے اور چمکدار شعلوں سے بھر دیا گیا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 8 سے 15) ربط کلام : جنوں کے واقعہ اور بیان کا ذکر جاری ہے۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ نبی کے آنے کے بارے میں ہمارا اور انسانوں کا گمان اس لیے غلط ثابت ہوا کہ پہلے ہم آسمان کے قریب جاکر ملائکہ کی کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے لیکن اب ہم آسمان کے قریب جاتے ہیں تو اسے سخت پہرے داروں اور بھڑکتے ہوئے شعلوں سے بھرا ہوا پاتے ہیں، ہم میں جو بھی سننے کے لیے آسمان کے قریب جاتا ہے تو وہ اپنے تعاقب میں بھڑکتا ہوا شعلہ پاتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والوں کے ساتھ سختی کرنے کا ارادہ کیا ہے یا ان کی راہنمائی کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ ہم میں سے کچھ صالح ہیں اور باقی برے ہیں اور ہم نے کئی طرح کے مذہب اختیار کر رکھے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو نہ تو کسی معاملے میں زمین میں عاجز کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بھاگ کر بچ سکتے ہیں اس لیے جونہی ہم نے ہدایت کی بات سنی تو ہم فوری طور پر اس پر ایمان لے آئے، جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ ہی اس پر زیادتی ہوگی۔ ہم میں کچھ مسلمان ہیں اور باقی نافرمان ہیں۔ جنہوں نے اپنے رب کا فرمان تسلیم کرلیا وہ ہدایت کے راستے پر چل پڑے اور جنہوں نے نافرمانی اختیارکی وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ نبی (ﷺ) کی بعثت سے پہلے جن آسمان کے دروازوں کے قریب جاکر کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے اور وہ باتیں کاہن قسم کے لوگوں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔ اس بنا پر کاہن لوگ غیب دانی کا دعویٰ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو خاتم المرسلین بنایا تو آسمان کی حفاظت کا خصوصی بندوبست فرمادیا تاکہ جن کسی طرح بھی آسمان کی باتیں نہ سن سکیں۔ اس لیے مسلمان ہونے والے جنوں نے اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اب آسمان کی حفاظت کے لیے پہرے دار بٹھادیئے گئے ہیں اور شہاب ثاقب ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بات بھی سمجھائی کہ ہمیں اپنے رب کی نافرمانی کرنے کی بجائے اس کی تابعداری اختیار کرنی چاہیے۔ کیونکہ جو اپنے رب کی تابعداری اختیار کرے گا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا اور نہ ہی اسے خوف ہوگا اور جس نے اس کی تابعداری نہ کی اسے جہنم کا ایندھن بننا ہوگا۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر ایمان لانے کی ترغیب دی کہ ایمان لانے میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تم اپنے رب پر ایمان لا کر اس کی نعمتوں کے حقدار بن جاؤ گے اور اس کی جہنم سے محفوظ ہوجاؤ گے۔ بے شک جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں لیکن جنوں کی آگ کے مقابلے میں ان کی آگ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان جنوں نے اپنے ساتھیوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا تاکہ وہ اپنے رب پر ایمان لے آئیں۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) خُلِقَتِ الْمَلاَ ئِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) (رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ۔۔ فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہَکَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہٖ الْیُمْنَی نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِہَا إِلَی صَاحِبِہِ فَیُحْرِقَہُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس بات کی خبر رسول اللہ (ﷺ) نے دی شیاطین آسمان سے چوری چھپے باتیں سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے سے اس کو بیان کرتے کیا بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیاکی حفاظت کے لیے چوکیدار اور شہاب ثاقب مقرر کر رکھے ہیں۔ 2۔ نبی (ﷺ) کی بعثت کے بعد جن آسمان کی کوئی بات نہیں سن سکتے۔ 3۔ جنوں میں نیک بھی ہوتے ہیں اور گمراہ بھی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی طاقت کسی معاملے میں بے بس نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی اللہ کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے۔ 5۔ جو شخص اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ نقصان ہوگا اور نہ اس پر زیادتی ہوگی۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ:20) 2۔ ” اللہ“ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن :29) 3۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور اس سے نکلتی ہے۔ ( الحدید :4) 4۔ اللہ تعالیٰ آسمانون و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلہ :7) (البقرۃ:284) 5۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:148)