سورة الجن - آیت 1

قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بے شک جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے7) ربط سورت : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو شرک سے روکنا اور توحید کی دعوت دینا تھا اسی دعوت کے ساتھ نبی آخر الزمان (ﷺ) مبعوث کیے گئے جس کا تذکرہ اس سورت میں جنوں کی زبان سے کیا گیا ہے۔ اہل مکہ جب کسی سفر کے دوران صحراء یا جنگل میں پڑاؤ ڈالتے تو قافلے کا ایک فرد کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر آواز دیتا کہ اے جنوں کے سردار ہم نے یہاں پڑاؤڈالاہے، ہماری تجھ سے درخواست ہے کہ اس صحراء میں ہماری حفاظت فرمانا۔ اس عقیدے کی تردید کے لیے نبی (ﷺ) کو ” قُلْ“ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ جو واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا ہے آپ یہ واقعہ اور جنوں کا عقیدہ اہل مکہ کے سامنے بیان فرمائیں۔ واقعہ اس طرح ہے کہ مکہ سے کچھ دور عکاظ کی منڈی لگتی تھی جو عکاظ بازار کے نام سے مشہور تھی۔ نبی (ﷺ) وہاں تبلیغ کی غرض سے جارہے تھے کہ راستے میں کہ آپ (ﷺ) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی آپ کی تلاوت جنوں کی ایک جماعت نے سنی۔ جنوں نے نبی (ﷺ) کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے کلیجے ہل گئے اور وہ فوری طور پر شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوگئے۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا خیال ہے کہ جب آپ (ﷺ) طائف سے مکہ واپس آرہے تھے تو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا۔ غالب بات یہی ہے کہ یہ واقعہ طائف سے واپسی کے وقت پیش آیا کیونکہ طائف والوں نے آپ کی دعوت کو مسترد کیا اور آپ پر بہت زیادتی کی تھی اس لیے آپ کو تسلی دی گئی کہ اگر طائف والوں نے آپ کی دعوت کو نہیں سنا تو آپ غم زدہ نہ ہوں یہ دعوت ایسی دعوت ہے کہ جس کو جن بھی قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی جس میں جنوں کے تاثرات اور عقائد کا ذکر کیا گیا ہے ” اَسْتَمَعَ“ کا معنٰی ہے کہ توجہ سے کان لگا کر سنناجونہی جنوں کی جماعت نے توجہ کے ساتھ قرآن مجید سنا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں میں جا کر کہا کہ اے ہمارے ساتھیو! ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو بھلائی اور خیرخواہی کی راہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہمارا رب بڑی عظمت والا، اعلیٰ اور ارفع ہے۔ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے اس لیے نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اولاد۔ ہم میں سے جو جن ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور کہتے ہیں کہ اس کی بیوی اور اولاد ہے وہ بیوقوف ہیں وہ اللہ پرجھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی انسان اور جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا اس لیے ہم اس باطل عقیدے میں مبتلا ہوگئے۔ بالخصوص جب انسانوں میں کچھ لوگوں نے جنوں سے پناہ حاصل کرنے کا عقیدہ اپنایا تو جن سرکشی اور شرک کرنے میں اور زیادہ آگے بڑھ گئے انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ ان آیات میں جنوں کے حوالے سے سب سے پہلے قرآن مجید کی تاثیر، اس کی عظمت اور دعوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ، انداز تکلم اور تاثیر کے لحاظ سے عجب کتاب ہے عجب کے لفظ میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسی کتاب جس کا کسی اعتبار سے بھی مقابلہ نہ کیا جاسکے۔ اس کتاب کی پہلی دعوت یہ ہے کہ ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہ کیا جائے کیونکہ شرک پرلے درجے کی بیوقوفی اور زیادتی ہے اس لیے جنوں نے شرک کو حماقت اور اسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی دعوت قبول کرنے سے پہلے جنوں کا عقیدہ تھا کہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بول سکتے، ایمان لانے کے بعد ان کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا کیونکہ ہدایت پانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہم جہالت میں تھے ورنہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ گویا کہ جس طرح جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہیں اسی طرح انسانوں میں غیب کی خبریں دینے اور مشکل کشائی کا دعویٰ کرنے والے، کاہن، سادھو، جوگی، دنیاپرست پیر، فقیر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ثواب کا جھانسہ دے کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے ساتھ وہ علماء بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے اور حماقت کی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو داتا اور دستگیر کہتے ہیں اور شرک کی دعوت دیتے ہیں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بھی بتلایا کہ جس طرح انسان سمجھتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجنا اسی طرح ہمارا بھی خیال تھا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانوں کا اور ہمارا یہ عقیدہ بھی غلط ثابت ہوا، ہمیں یقین ہوگیا کہ آسمان کی حفاظت کے لیے جس طرح غیر معمولی اقدامات کرلیے گئے ہیں یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی اہم ترین واقعہ رونما ہونے والا ہے یعنی نبی مبعوث ہوچکا ہے۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید بڑی ہی عظیم کتاب ہے۔ 2۔ قرآن مجید صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دعوت ” اللہ“ کی توحیدکو ماننا اور شرک سے رکنا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی شان بڑی بلندوبالا ہے لہٰذا وہ بیوی اور اولاد سے مبرّا ہے۔ 4۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شریک ثابت کرتے ہیں وہ حماقت کی بات کرتے ہیں اور اپنے رب پرجھوٹ بولتے ہیں۔ 5۔ جو لوگ کسی نہ کسی انداز میں جنوں سے مدد مانگتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے کے ساتھ جنوں کی بغاوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ 6۔ جنوں میں بہت سے جن اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے ساتھ نبی (ﷺ) کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ : 1۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : 116، 117) 2۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف :37) 3۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ:61) (آل عمران ؛94)