سورة نوح - آیت 1

إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آجائے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 2) ربط سورت : سورۃ المعارج کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو برے لوگوں کو ختم کر کے نیک لوگ لے آئے۔ سورۃ نوح میں اس کا عملی ثبوت دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو کس طرح ہلاک کیا اور نیک لوگوں کو آباد فرمایا اور انہیں ترقی دی۔ اس لیے المعارج کے بعد سورۃ نوح کو رکھا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا نسب نامہ اس طرح ہے نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ ( ادریس (علیہ السلام) بن یرد بن مھلا ییل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام)۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے عرض کی کہ آدم (علیہ السلام) نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ پھر اس نے سوال کیا کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا دس قرن (صحیح ابن حبان) قرن سے مراد اہل علم نے ایک نسل یا ایک صدی لی ہے ایک صدی یعنی سو سال نہیں ہو سکتے کیونکہ حضرت آدم اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کئی نسلیں گزری ہیں لہٰذا نسل مراد لی جائے تو آدم (علیہ السلام) کی وفات اور نوح (علیہ السلام) کی پیدائش کے درمیان ہزاروں سال کی مدت بنتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی عمر صدیوں پر محیط ہوا کرتی تھی جس بنا پر حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ثابت ہوتا ہے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔