فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيلًا
پس تو صبر کر، بہت اچھا صبر۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 9) ربط کلام : نبی (ﷺ) کی شب وروز کوشش تھی کہ کفار کو جہنم کے عذاب سے بچایا جائے اس کے باوجود کفار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے جس پر نبی (ﷺ) کو پریشانی ہوتی تھی اس لیے آپ کو صبر جمیل کی تلقین کی گئی۔ کفار کا بار بار عذاب کا مطالبہ کرنا آپ (ﷺ) کے لیے دو وجہ سے پریشان کُن تھا پہلی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے آرام اور کام کی پرواہ کیے بغیر انتہائی خیرخواہی اور درد مندی کے ساتھ کوشش فرمارہے تھے کہ یہ لوگ کفر و شرک چھوڑ کر اپنے رب کے حضور تائب ہوجائیں مگر وہ لوگ تائب ہونے کی بجائے آپ کی مخالفت اور اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھے جارہے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کو اس بات پر طعنہ دیتے اور جھوٹا قرار دیتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک نازل کیوں نہیں ہوا۔ اس پر بھی آپ (ﷺ) کو پریشانی لاحق ہوتی تھی۔ اس صورتحال میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ کو پریشان اور غمگین ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ جمیل کا معنٰی خوبصورت اور نہایت اچھا ہے یعنی ایسا صبر جس میں کسی قسم کی جلد بازی اور شکوہ، شکایت نہ ہو۔ آپ کو تسلی دینے اور حقیقت بتلانے کے لیے ارشاد ہوا کہ نادان اس عذاب کو دورسمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت قریب ہے۔ جس دن انہیں عذاب دیا جائے گا وہ دن اپنی حدّت کے لحاظ اس قدر سخت ہوگا کہ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے۔ ” اَلْمُہْلِ“ جلے ہوئے تیل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ تیل آگ پر زیادہ دیرپڑے رہنے کی وجہ سے گہرا سرخ ہوجاتا ہے۔ قیامت کی حِدّت کی وجہ سے آسمان کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اس دن آسمان ” اَلْمُہْلِ“ کی مانند ہوگا۔ مسائل: 1۔ کفار اور مشرکین کے طعنوں سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ 2۔ کفار اور نافرمان لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں حالانکہ قیامت بہت قریب ہے۔ 3۔ قیامت کے دن آسمان تانبے کی مانند اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔