سورة الحاقة - آیت 1

لْحَاقَّةُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ ہو کر رہنے والی۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : سورۃ القلم کے آخر میں قیامت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس دن منکرین کے لیے ذلّت اور رسوائی ہوگی۔ سورۃ الحاقہ کی ابتدا میں قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت کا ذکر کرنے کے بعد قیامت کی ہولناکیوں کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ دنیا میں ذلیل ہوئے اس سے بڑھ کر آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ اَلْحَاقَّۃُ“ ہر صورت واقع ہونے والی ہے، واقع ہونے والی کیا ہے ؟ آپ نہیں جانتے کہ واقعہ ہونے والی کیا ہے ؟ ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا لفظ حق سے نکلا ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے جس کا معنٰی ہے کہ اس کا واقع ہونا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اس لیے وہ یقین بالیقین اپنے وقت پر واقع ہوکررہے گی مفسرین نے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ اس دن حساب و کتاب کا ہونا برحق ہے جس میں سچ اور جھوٹ، حق اور باطل نیک اور بد کی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے اس لیے اسے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کہا گیا ہے کیونکہ اس کا واقع ہونا یقینی ہے۔ وہ کب واقع ہوگی ؟ اس کا علم عام لوگوں کو تو درکنار انبیاء اور نبی آخر الزّمان (علیہ السلام) کو بھی نہیں تھا کہ وہ کب اور کس سال واقع ہوگی۔ نبی (ﷺ) سے جب یہ سوال کیا گیا کہ قیامت کب قائم ہوگی تو آپ نے یہی فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی یعنی کون سے سال، کس مہینے اور اس کے کون سے جمعہ کو واقع ہوگی انسان کا کام اس کی تیاری کرنا ہے۔ اس لیے آپ (ﷺ) نے ایک سائل کے جواب میں اسے توجہ دلائی کہ قیامت کی تاریخ جاننے کی بجائے اس کے حساب و کتاب کی فکر کرو۔ ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس کا لباس بالکل سفید اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے پہچان نہ سکا وہ آتے ہی نبی کریم (ﷺ) کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ سے استفسار کرنے لگا۔ اے محمد (ﷺ) مجھے قیامت کے بارے میں بتلایا جائے۔ آپ نے فرمایا جس سے قیامت کے متعلق پوچھا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا پھر اس نے کہا مجھے اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ فرمائیں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے ننگے پاؤں ننگے جسم نہایت غریب بکریوں کے چرواہے بڑے بڑے محلات بنانے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جب وہ چلے گئے تو میں کچھ دیر آپ کے پاس ٹھہرا رہا آپ (ﷺ) نے مجھے سے پوچھا اے عمر! آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے آئے تھے۔ (رواہ البخاری : باب سُؤَالِ جِبْرِیل النَّبِیَّ (ﷺ) عَنِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ وَالإِحْسَانِ وَعِلْمِ السَّاعَۃِ ) (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا.) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (ﷺ) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے محبت کرے گا۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔“ ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (ﷺ) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی دن ان کا جنت سے اخراج ہوا۔ اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) مسائل: 1۔ قیامت اپنے وقت پر ہر صورت واقع ہوگی۔ 2۔ نبی (ﷺ) بھی نہیں جانتے تھے کہ قیامت کون سے سال اور اس کے کون سے مہینے میں اور کونسے جمعہ کو واقع ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا : 1۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف :68) (الاعراف :187) (الزخرف :85)