بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ الحاقہ کا تعارف : یہ سورت اپنے نام ہی سے شروع ہوتی ہے مکہ میں نازل ہوئی دو رکوع اور باون آیات پر مشتمل ہے، یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں مجموعی طور پر دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے رکوع میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے سے بتلایا کہ قوم ثمود کو سخت آندھی سے ہلاک کیا گیا جو سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اس نے قوم ثمود کو اس طرح پھٹک پھٹک کر زمین پر دے مارا کہ ان کا کچومبر نکل گیا یہ زمین پر اس طرح پڑے ہوئے تھے جیسے کھجور کے گنے گرے پڑے ہوئے ہوں۔ قوم ثمود کے بعد فرعون اور اس کے لشکر کی ہلاکت کا ذکر کیا ہے جنہیں آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا بشرطیکہ کوئی نصیحت کے طور پر سننے والا ہو یہ وہ لوگ تھے جو اللہ اور اس کے رسول اور قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے حالانکہ قیامت ہر صورت برپا ہونے والی ہے۔ اس دن پہاڑ ایک ہی دھماکے سے ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا اور آٹھ ملائکہ اپنے رب کا عرش اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ جس شخص کو اس کے دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ آواز پر آواز دے گا کہ آؤ میرا اعمال نامہ پڑھو۔ میرا ایمان تھا کہ ایک دن مجھے میر احساب ملنے والا ہے وہ جنت عالی میں بڑی عیش کی زندگی بسر کرے گا اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اسے کہا جائے گا کھاؤ اور پیو کیونکہ تم دنیا میں اچھے کام کیا کرتے تھے۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا کہ کاش! مجھے یہ اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور نہ ہی مجھے اپنے حساب کتاب سے واسطہ پڑتا۔ وہ اپنے گزرے ہوئے وقت پر افسوس کرتے ہوئے کہے گا کہ نہ میرے مال نے مجھے فائدہ دیا اور نہ میرا اقتدار میرے کام آیا۔ وہ اس افسوس میں مبتلا ہوگا کہ اسے پکڑ لیا جائے گا اور ستر فٹ لمبی زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے کیونکہ یہ اپنے عظیم رب پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا اور نہ ہی مسکینوں کا خیال کرتا تھا۔ آج اس کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا اور اسے کھانے کے لیے جہنمیوں کے زخموں کی پیپ دی جائے گی جسے صرف مجرم ہی کھائیں گے۔ اس سورت کا دوسرا بنیادی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر کفار کے الزامات کی تردید کی ہے کہ یہ قرآن جبرائیل امین کے ذریعے نازل ہوا ہے نہ کسی شاعر کا کلام ہے اور نہ کسی کاہن کی گفتگو ہے۔ اسے صرف رب العالمین نے نازل کیا ہے یہ ادھر ادھر کی مداخلت سے اس حد تک پاک ہے کہ اگر حضرت محمد (ﷺ) اپنی طرف سے اس میں کوئی بات ڈالنے کی کوشش کرتے تو ان کا بھی دایاں ہاتھ کاٹ دیا جاتا اور کوئی انہیں بچانے والا نہ ہوتا۔ یہ نصیحت ہے پرہیزگاروں کے لیے جو لوگ اس نصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کرتے وہ کافر ہیں اور کفار کے لیے ہلاکت اور افسوس کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔