سورة القلم - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ القلم کا تعارف : اس سورت کے دو نام بیان کیے جاتے ہیں ن اور قلم۔ دونوں نام اس کی ابتداء میں موجود ہیں یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی یہ باون آیات پر مشتمل ہے جنہیں دو رکوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جس دور میں مشرکین مکہ آپ کی مخالفت میں اندھے ہوچکے تھے۔ ان کے اندھے پن کا عالم یہ تھا کہ وہ آپ کے شاندار ماضی اور اعلیٰ اخلاق کو جاننے کے باوجود آپ کو دیوانہ مشہور کرتے تھے۔ ان کے پروپیگنڈے کے توڑ اور نبی (ﷺ) کے اخلاق اور عزت کو اجاگر فرمانے کے لیے نون اور قلم کی قسم اٹھا کر واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں۔ نون اور قلم کی قسم اٹھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ جس قرآن کی وجہ سے تم نبی (ﷺ) کو مجنون کہتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کیا جارہا ہے، عنقریب وقت آنے والا ہے جب تمہیں پتہ چل جائے گا مجنون کون ہے اور سیدھے راستے سے کون بھٹک چکا ہے۔ کفار کے پروپیگنڈہ کا مقصد یہ تھا کہ نبی (ﷺ) کو اس قدر بدنام اور خوف زدہ کردیا جائے کہ آپ خوف اور بے عزتی سے ڈر کر اپنی دعوت کو چھوڑ دیں یا کچھ نرمی کے لیے تیار ہوجائیں۔ آپ (ﷺ) کو اس خوف سے بے نیاز کرنے اور کفار کی سازش سے بچانے کے لیے حکم ہوا کہ کسی حال میں جھوٹے لوگوں کے ساتھ نرمی نہیں کرنی اور نہ ہی کسی جھوٹے اور کمینے کی بات کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے بعد مشرکین کے ایک نمائندے کا کردار ذکر کیا گیا ہے یہ اس قدر کمینہ ہے کہ جھوٹی قسمیں کھانے والا اور چغلیایاں کرتا پھرتا ہے۔ بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے، ظلم کرنے والا ہے اور پرلے درجے کا گھٹیا انسان ہے۔ یہ اس لیے اخلاقی حدود سے گزر چکا ہے کیونکہ اس کے پاس بہت مال اور جوان بیٹے ہیں اس لیے قرآن مجید کے ارشادات کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتا ہے۔ عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائے جائیں گے۔ کیا ایسے لوگوں کو علم نہیں کہ ان سے پہلے کچھ لوگ ایسے گزر چکے ہیں جن کے پاس مال اور بہت بڑا باغ تھا۔ انہوں نے کمزوروں کے حقوق سلف کرنے کا فیصلہ کیا ان کے اپنے آدمی نے انہیں سمجھایا لیکن وہ باز نہ آئے جس کا نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ کو خاکستر کردیا اور وہ اپنے آپ پر افسوس کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر پائے۔ اس بات کی طرف اشارہ کر کے اہل مکہ کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر اپنی ہلاکت اور بربادی سے بچنا چاہتے ہو تو نبی (ﷺ) کی دعوت قبول کرلو۔ جو تمھارا ہی ایک فرد ہے اگر تم برائی کے راستے سے بچ جاؤ اور نیکی کا راستہ اختیار کرلو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت نعیم میں داخل کرے گا۔ اس کے بعد مشرکین کو چند سوال کیے گئے ہیں اور پھریہ سوال کیا کہ فرمابردار اور نافرمان برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیونکہ اہل مکہ تعصب میں آ کر نیکی اور برائی کا امتیاز ختم کرچکے تھے اس لیے فرمایا کہ تم کس طرح کے فیصلے کرتے ہو؟ کیا تمھارے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس سے پڑھ کر تم ایسی باتیں کرتے ہو؟ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں انہیں سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس دن تمھارا کیا حال ہوگا جب رب ذوالجلال اپنی پنڈلی سے پردہ اٹھائیں گے تو نیک بندئے اس کے حضور سر بسجود ہوجائیں گے اور نافرمان کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے وہ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کر نہیں پائیں گے۔