قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
کہہ دے وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے، تم کم ہی شکر کرتے ہو۔
فہم القرآن: (آیت 23 سے 26) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت 16سے لے کر 22تک چھ مرتبہ سوالیہ انداز میں اپنی قدرتیں سمجھائی ہیں اور اب نبی (ﷺ) کو چھ مرتبہ ” قُلْ“ کے لفظ سے حکم دیا ہے کہ آپ اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں سے لوگوں کو آگاہ فرمائیں کہ اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے یہ بھی ایک بڑی نشانیاں ہیں کہ اس نے تمہیں پیدا فرمایا، تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تھوڑے لوگ ہیں جو اس کا شکر ادا کرتے ہیں، یہ بھی انہیں بتلائیں کہ اس نے تمہیں پیدا کرنے کے بعد زمین پر پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گئے۔ ان آیات میں بڑے اختصار کے ساتھ انسان کی تخلیق، اس کی صلاحیتوں اور لوگوں کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ بالآخر تم سب نے اسی کی طرف اکٹھا ہونا ہے۔ اگر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے اور ہر انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے پھر اس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ وہ کانوں کے ساتھ حقیقت سنے، آنکھوں کے ساتھ اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرے اور دل میں غور کرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جس ذات نے اسے ان صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا اسے اس کی ذات اور بات کا انکار کرنے کی بجائے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکرگزار بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ذہن میں یہ بات سما جائے کہ اگر میں نے اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا نہ کیا تو مجھے قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا۔ لیکن ناشکرے لوگوں کی حالت اور عادت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کفار کے سوال کا متعدد مرتبہ جواب دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہتے تھے اور کہتے رہیں گے کہ قیامت کب آئے گی۔ ان کے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ وہ قیامت کی آمد پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء اور ان کے ماننے والے کہتے رہے ہیں کہ قیامت آنے والی ہے لیکن آج تک قیامت نہیں آئی۔ بقول ان کے یہ بات لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی ان کا کہنا ہے کہ انسان اسی طرح ہی پیدا ہوتے اور مرتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے اور دنیا کا نظام جس طرح چل رہا ہے اسی طرح چلتا رہے گا۔ موت و حیات کا سلسلہ بھی اس نظام کا ایک حصہ ہے لہٰذا جو شخص مَر چکا وہ کبھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ ﴿وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَظُنُّونَ﴾ (الجاثیہ :24) ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیزجو ہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔“ مسائل: 1۔ ” اللہ“ ہی نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے۔ 2۔ ” اللہ“ ہی نے لوگوں کو زمین میں پھیلا یا اور وہی انہیں اپنے حضور اکٹھا کرے گا۔ 3۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ 4۔ نبی (ﷺ) کا کام لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب برپا ہوگی : 1۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف :68) 2۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ (الاعراف :187) 3۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف :85) 4۔ قیامت قریب آگئی اور اس کے آنے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ (النجم : 57۔58) 5۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کو علم نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ (الانعام :59) 6۔ قیامت قریب آگئی ہے لیکن لوگ اسے اعراض کرتے ہیں۔ ( الانبیاء :1)