هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وہی ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو تابع بنا دیا، سو اس کے کندھوں پر چلو اور اس کے دیے ہوئے میں سے کھاؤ اور اسی کی طرف (دوبارہ) اٹھ کر جانا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جس رب نے انسان کو پیدا کیا ہے اسی نے انسان کے لیے زمین کو بنایا اور بچھایا ہے۔ اس سورت کی آیت 3تا 5میں آسمانوں کی تخلیق، تزئین اور حفاظت کا ذکر فرماکر انسان کو یہ حقیقت یاد کرائی گئی ہے کہ جس خالق نے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ لوگوں کے سینوں کے رازوں سے واقف ہے اور جو رب لوگوں کے دلوں کے جذبات کو جانتا ہے اس نے ہی زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھاؤ اور یاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ” ذَلُوْلًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی نر م ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اور پہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے یہاں تک کہ سمندر پر بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جس سے ایک ملک کے وسائل اور اناج باآسانی دوسرے ملک میں پہنچ رہے ہیں۔ اس سے لوگوں کے رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے اور نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کرسکتی تھی۔ مسائل: 1۔ اللہ ہی نے زمین کو نرم بنایا اور اس پر راستے بنائے۔ 2۔ اللہ ہی لوگوں کو رزق دینے اور کھلانے والاہے۔ 3۔ ہر شخص نے اپنی اپنی قبر سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ہرکسی نے ” اللہ“ کے حضور پیش ہونا ہے : 1۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد :36) 2۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : 85، مریم : 40، الزمر : 44، یونس :56)