سورة الملك - آیت 12

إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یقیناً جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بڑا اجر ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 12 سے 14) ربط کلام : جو لوگ اپنے رب سے ڈرگئے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے ان کا اجر۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو برائی سے اس لیے نہیں بچتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ وہ ملکی قانون، خاندانی روایات یا پھر معاشرے کے خوف کی وجہ سے برائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسا کرنا اچھی بات ہے اور اس کا دینا میں فائدہ ہوتا ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی لوگ اجر پائیں گے جو اللہ کے خوف کی وجہ سے برائی سے بچتے ہیں۔ ان سے جو گناہ بتقاضا بشریت ہوگا اللہ تعالیٰ نہ صرف اسے معاف فرمائے گا بلکہ انہیں اجر کبیر سے بھی ہمکنار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے غائب میں ڈرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہے۔ غائب سے مرادوہ کام اور چیز ہے جو انسان ایک دوسرے سے چھپا سکتا ہے یا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر اور پوشیدہ برابر ہے۔ ” اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ اٹھائے ہوئے ہے اور رحم جو کچھ کم کرتے ہیں اور جو زیادہ کرتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ مقرر ہے۔ وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ برابر ہے اس کے لیے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے بلند آواز سے کرے۔ جو رات کو چھپا ہوا ہے اور جو دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔ اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خود بدل لے۔“ (الرعد : 8تا11) اس لیے اس کا فرمان ہے کہ تم اپنی بات ظاہر کرو یا خفیہ رکھو۔ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ سوچو اور غور کرو ! کیا جس نے انسان اور ہر چیز کو پیدا کیا ہے وہ کسی بات سے بے خبر ہوسکتا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ باریک سے باریک تر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ () قَالَ لَمَّا تَجَلّٰی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوْسیٰ ( علیہ السلام) کَانَ یَبْصُرُالنَّمْلَۃَ عَلیٰ الصَّفَا فِیْ الَّلیْۃِ الظُّلْمَاءِ مَسِیْرَۃَ عَشْرَۃِ فَرْسَخٍ) ( تفسیر ابن کثیر، سورۃ الاعراف :143) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تجلی فرمائی اس وقت وہ اندھیری رات میں دس فرسخ کے فاصلے سے پتھر پر چلنے والی چیونٹی کو دیکھ رہا تھا۔“ ﴿اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا﴾ (الفرقان :70) ” ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لاکرصالح عمل کرے ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا کیونکہ اللہ غفورّرحیم ہے۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ اپنے رب سے غائب کی حالت میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجر کبیر ہے۔ 2۔ کوئی اپنی بات کو ظاہر کرے یا اسے چھپائے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ 3۔ ہر انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ باریک سے باریک تر چیز سے باخبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سے غائب کی حالت میں ڈرنے والے لوگوں کا صلہ اور مقام : 1۔ جو لوگ اللہ سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (الملک :12) 2۔ جو الرحمن سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش کی خوشخبری ہے۔ (یٰس :11) 3۔ آپ (ﷺ) ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (الفاطر :18) 4۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا، قرآن مجید اور سابقہ کتب آسمانی پر ایمان لانا اور آخرت پر یقین رکھنے والوں کے لیے کامیابی ہے۔ (البقرۃ: 3، 4)