سورة الملك - آیت 5

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے قریب کے آسمان کو چراغوں کے ساتھ زینت بخشی اور ہم نے انھیں شیطانوں کو مارنے کے آلے بنایا اور ہم نے ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : پہلے آسمان کی خصوصیت اور خوبصورتی۔ قرآن مجید میں یہ بات کئی مقامات پر بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان کو ستاروں سے مزّین فرمایا ہے۔ ستاروں کے کئی فائدے ہیں، ان میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ ستاروں کے ذریعے راستوں کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور انہی ستاروں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا بندو بست کیا گیا ہے۔ کیونکہ شیاطین آسمان دنیا کے دروازوں کے قریب جا کر ملائکہ کی گفتگو سننا چاہتے ہیں تو ستارے شیاطین پر انگارے بن کر برستے ہیں اس طرح شیاطین پر مستقل طور پر عذاب مسلّط کردیا گیا ہے۔ اس بندوبست سے پہلے شیاطین آسمان کے قریب جا کر ملائکہ کی کچھ نہ کچھ باتیں سن کر کاہنوں، نجومیوں اور اس قسم کے لوگوں کے دلوں میں جھوٹ، سچ ملا کر کوئی بات ڈال دیتے تھے۔ اسے آٹھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس جھوٹ کی طرف مائل ہوں اور وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ، وہ برائیاں کریں۔“ (الانعام :113) اہل مکہ اسی بات کو نبی (ﷺ) پر چسپاں کرتے اور کہتے کہ محمد (ﷺ) کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتے ہیں جو پہلے لوگوں کے واقعات سنانے کے ساتھ اسے مزید باتیں بتاتے ہیں۔ اس الزام کی یہاں مجمل الفاظ میں تردید کی گئی ہے۔ انیسویں پارے میں کھلے الفاظ میں وضاحت فرمائی۔ ” کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے اور گنہگار پر اترتے ہیں اور انہیں سنی سنائی باتیں پہنچا تے ہیں۔“ (الشعراء : 221تا223) خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اسے خوبصورت بنایا اور شیاطین سے انہیں محفوظ کردیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ پہلے زمانے میں فلکیات کا علم رکھنے والے ماہرین نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ برج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں، جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے چوکیدار ملائکہ ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہوجن سے وہ شیاطین کو بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ حدیث رسول (ﷺ) سے برج کے بارے میں ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی، البتہ آپ (ﷺ) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں نبی (ﷺ) کی یہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح کہ چٹان پر پھوار پڑتی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ملائکہ اس حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں حق فرمایا۔ وہی سب سے بلند و بالا ہے پس شیاطین اسے چوری چھپے سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے اسے بیان کیا۔ بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسا اوقات شہاب ثاقب اسے نہیں پہنچتا یہاں تک کہ شیطان وہ بات نیچے والوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے ابو سفیان کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو زمین والوں تک پہنچا دیتا اور اسے جادو گر کے کان میں ڈالتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے اس کی ایک بات کی وجہ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے وہ کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی جو حق ثابت ہوئی تھی اس وجہ سے کہ وہ بات انھوں نے آسمان سے سنی ہوتی ہے۔“ (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ﴾) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا یعنی پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین فرمایا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو شیطان کے لیے شباب ثاقب بنادیا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے لیے جلادینے والاعذاب تیار کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ستاروں کے فوائد : 1۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں آراستہ کیا۔ (الحجر :16) 2۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان :61) 3۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے سجایا۔ (البروج :1) 4۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کردیا ہے۔ (الصافات :6) 5۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ کردیا۔ (حٰم السجدۃ:12) (ق :6)