يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ ۖ نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف توبہ کرو، خالص توبہ، تمھارا رب قریب ہے کہ تم سے تمھاری برائیاں دور کر دے اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے، رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرفوں میں دوڑ رہا ہوگا، وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : نافرمانوں کو جہنم سے بچنے کے لیے توبہ کرنے کا حکم۔ اس سے پہلے کفار کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنے جرائم پر معذرت پیش کریں گے لیکن انہیں کہا جائے گا کہ آج تم اپنے کیے کی سزا پاؤ گے۔ اب ایمان والوں کو حکم ہوا کہ اے ایمان والو! اللہ کے حضور ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے گناہ مٹا دیئے جائیں اور تمہیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اللہ تعالیٰ اس دن اپنے نبی اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کے ا یمان کی روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں جانب ہوگی اور وہ اپنے رب سے التجاء کریں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے نور کو مزید بڑھا اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں ایمانداروں کو ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کا حکم دینے کے بعد یہ کہہ کر خوشخبری دی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ” اللہ“ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی وجہ سے تمہارے گناہوں کو معاف فرما کر تمہیں جنت میں داخل کردے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو معاف کردے گا لیکن پھر بھی ” عَسیٰ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ ہوسکتا ہے یہ لفظ استعمال فرما کر مومنوں کو سمجھایا کہ اپنے گناہوں سے بے فکر ہونے کی بجائے بار بار توبہ کرتے رہو۔ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کا معنٰی ہے کہ توبہ محض کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کے خوف اور اس کی رضا کے لیے کی جائے۔ جو ایماندار سچی توبہ کریں گے، اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے گناہ معاف فرما کر انہیں جنت میں داخل کرے گا بلکہ محشر کے میدان سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ان کے ایمان اور ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی وجہ سے ان کے لیے روشنی کا بندوبست بھی فرمائے گا، یہ روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں جانب بھی پھیل رہی ہوگی۔ دائیں جانب کا ذکر فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ محشر کے میدان میں بائیں جانب والے جہنمی ہوں گے اور دائیں جانب والے جنتی ہوں گے۔ (الواقعہ : 8، 9) جہنمی لوگ جہنم کی طرف جاتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور اپنے لیے نور کی دعائیں کرتے جائیں گے۔ یہاں مفسرین نے گناہوں سے مراد نور کے ختم ہونے کا خوف لیا ہے کیونکہ گناہ معاف کرنے کے بعد ہی تو جہنمی کو جہنم میں داخلہ دیا جائے گا۔ (عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ قَالَ رَقِیتُ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَلَی ظَہْرِ الْمَسْجِدِ فَتَوَضَّأَ فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) یَقُولُ :إِنَّ أُمَّتِی یُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَہُ فَلْیَفْعَلْ) (رواہ البخاری : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) ” حضرت نعیم مجمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مسجدکی چھت پر چڑھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کو قیامت کے دن جب بلایا جائے گا تو وضو کرنے کی وجہ سے ان کے پانچ کلیان چمکتے ہوئے ہوں گے۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ تم سے جو اپنی چمک کو زیادہ کرنے کی طاقت رکھتا اسے ایسا کرنا چاہیے۔“ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) (رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل) ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور ہی نور پیدا فرما۔“ یہاں توبہ کے لیے ” نَّصُوْحا“ کی شرط عائد کی گئی ہے۔ جس کا معنٰی ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے توبہ کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام (رض) نے ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی کئی شرائط بیان کی ہیں جن میں بنیادی شرائط تین ہیں۔ 1۔ اپنے گناہ پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگنا۔ 2۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم بالجزم کرنا۔ 3۔ گنا کے اثرات کی تلافی کرنا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے حضور ایمانداروں کو ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کرنی چاہیے۔ 2۔ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کے بدلے ایمانداروں کے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ 4۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ 5۔ جنتی کا ایمان ان کے لیے نور ثابت ہوگا۔ 6۔ جنت کی طرف جاتے ہوئے اپنے رب سے نور کی تکمیل اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن: جنتی کی جنت میں جانے کی شان : 1۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو فرشتے انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل :32) 2۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد :24) 3۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق :34) 4۔ فرشتے جب جنتی کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر :73) 5۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں غم اور حزن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ:30)