يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں، اس پر سخت دل، بہت مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 6 سے 7) ربط کلام : ازواج مطہرات کو انتباہ کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچیں اور اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچائیں۔ خاندان اور قوم کی اصلاح کا بنیادی اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال کی اصلاح کرتا رہے یہ کام بڑا اہم ہے جس کے لیے انتباہ کے انداز میں فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں، وہ اللہ کے حکم کی ایک لمحہ بھی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ اسی طرح ہی کرتے ہیں جس طرح انہیں حکم دیا جاتا ہے یادر کھو! ٖ جو لوگ اللہ کے حکم کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن انہیں سے کہا جائے گا کہ اے کافرو! آج کے دن کوئی بہانہ اور معذرت پیش نہ کرو! کیونکہ آج تمہیں تمہارے کیے کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ یاد رہے کہ گناہ کرنے والا ہر شخص اپنے یا اپنے عزیز و اقرباء کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ عزیز و اقرباء میں سب سے پہلے آدمی کی اپنی اولاد ہوتی ہے، جن کی محبت اور خیرخواہی میں آکر عام انسان ہی نہیں بلکہ بے شمار اچھے بھلے مسلمان بھی اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں، کیونکہ انسان اپنے یا اپنے عزیز واقرباء کے فائدے اور خیرخواہی کے لیے گناہ کرتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو انتباہ کیا ہے کہ آج اپنے اور اپنے عزیز واقرباء کے فائدے اور خیر خواہی کے لیے اپنے رب کی نافرمانی کیے جارہے ہو۔ وہ وقت یاد کرو! جب نافرمانوں کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوگے، وہاں عزیر واقربا کام نہیں آئیں گے۔ آہ وزاریاں اور معذرت پہ معذرت کریں گے لیکن ان کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ دانا اور بہترین شخص وہ ہے جو اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ) (رواہ البخاری : باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر اپنی رعایا پر نگران ہے۔ آدمی اپنے گھر کا نگران ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنے بچوں کی نگران ہے۔ تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ ہر ایماندار کو اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں۔ وہ جہنمی کو اس طرح سزا دیں گے جس طرح انہیں حکم دیا جائے گا۔ 3۔ جہنم کی آگ کا ایندھن مجرم اور پتھر ہوں گے۔ 4۔ جہنم میں کفار کی کوئی معذرت قبول نہیں ہوگی۔ 5۔ جہنمی کو کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ تفسیر بالقرآن: والدین کی اپنی اولاد کے بارے میں ذمہ داریاں : 1۔ اولاد کو شرک سے بچنے کا حکم دینا چاہیے۔ (لقمان :13) 2۔ اولاد کو ایک الٰہ کی عبادت کا حکم دینا چاہیے۔ (البقرۃ:132) 3۔ اولاد کو مسلمان رہنے کی نصیحت کرنی چاہیے۔ (البقرۃ:132) 4۔ اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ:132) 5۔ اولاد کو نیکی کی تبلیغ اور برائی سے منع کرنے کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ (لقمان :17) 6۔ اولادکی بول چال اور چال ڈھال پر نظر رکھنی چاہیے۔ (لقمان :18) 7۔ اولاد کو آخرت کی جوابدہی کا احساس دلانا چاہیے۔ (لقمان :16) 8۔ نہ اسراف کرو، نہ زنا کرو اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو۔ (الممتحنہ :12) 9۔ اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچا لو۔ (التحریم :6)