وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَإِنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
اور اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو، پس اگر تم پھر جاؤ تو ہمارے رسول کے ذمے تو صرف کھلم کھلا پہنچا دینا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 12 سے 13) ربط کلام : ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ عسر اور یسر میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں۔ مومن ہو یا نافرمان، کافر ہو یا مسلمان، امیر ہو یا غریب ہر کسی کی زندگی نشیب وفراز، سُکھ اور دکھ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ نافرمانوں کے مقابلے میں ایمانداروں کی زندگی قدرے مشکل ہوتی ہے۔ کیونکہ ایماندار شخص اللہ اور اس کے رسول کا پابند ہوتا ہے جس وجہ سے دنیا میں وہ فوائد اور آسائشیں حاصل نہیں کرسکتا جو نافرمان حاصل کرلیتے ہیں۔ مصیبت ہویاراحت، مشکل ہو یا آسانی، نفع ہو یا نقصان ایمانداروں کو حکم ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں۔ ایماندار کو اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے مصیبت سے نجات دے۔ لہٰذا ایماندار کو ” اللہ“ پر ہی توکل اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اس میں اسی کا فائدہ ہے اگر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیر لیں تو ہمارے رسول پر حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا معنٰی ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے، توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے اگر کسی کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں تو وہ حوصلہ ہار بیٹھے گا اور مسائل کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ بلا شبہ اسباب کا استعمال لازم اور ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسائل کے حل کے لیے مادی وسائل میں ایک قوت رکھی ہے۔ سردی اور گرمی سے بچنے کے لیے موسم کے مطابق لباس اور رہائش اختیار نہ کی جائے تو انسان کی صحت پر مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سفر کے لیے سواری درکار ہے، دشمن سے بچاؤ کے لیے اسلحہ کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی کے پاس و سائل ہوں تو وہ کسی حد مطمئن اور اپنی کامیابی کے بارے میں پر اعتماد ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ عقیدے میں کمزور اور مادہ پرست انسان کی نگاہ صرف اسباب پر رک جاتی ہے اس کا ذہن مسبب الاسباب کی طرف بہت کم متوجہ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات دنیا دار انسان کامیابی کو اپنی محنت اور صلاحیت کا نتیجہ سمجھتا ہے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی عطا نہ ہوتی تو جس طرح میری جان پہچان کے لوگ وسائل سے محروم ہیں۔ میں بھی اسی طرح تہی دامن ہوتا تو پھر میرا کیا حال ہوتا اسے یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ مالک حقیقی کی مشیّت اور حکم شامل حال نہ ہو تو وسائل اور اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس دنیا و جہاں میں ہر روز رونما ہونے والے واقعات اس فکر اور عقیدے کی تائید کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کی قوت کو سلب کرلیا جاتا ہے تو پھر سب کچھ موجود ہونے کے باوجود انسان ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرتا ہے۔ اگر اسباب بذات خود انسان کی مشکلات کا مداوا ہوتے تو ڈاکٹر اور حکیم موت کی وادیوں میں بسیرا نہ کرتے۔ محض وسائل ہی مسائل: کا حل ہوتے تو بڑے بڑے فرمانروا اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ایڑیاں نہ رگڑتے اس لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم یہ ہے کہ وسائل کو ہر حال میں استعمال کیا جائے مگر اس کی قوت کار کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اسباب اسی وقت کارآمد اور مفید ثابت ہوں گے جب مالک حقیقی کا حکم جاری ہوگا۔ اس حقیقت کے پیش نظر مسلمان کا فرض ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ذرائع اور وسائل کو اختیار کرتے ہوئے ان کے اثرات اور نتائج کو اللہ کا انعام تصور کرے۔ توکّل علی اللہ کی تکمیل تب ہوتی ہے کہ جب آدمی یہ عقیدہ بنا لے کہ کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی ” اللہ“ میری مدد کرنے پر قادر ہے اور وہ میری مدد ضرور فرمائے گا۔ مسائل: 1 ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ 2۔ اللہ کے سوا کوئی معبود اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ 3۔ ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ پر توکل کے فوائد : 1۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3) 2۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ :36) 3۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت :59)