أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ فَذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
کیا تمھارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جنھوں نے اس سے پہلے کفر کیا، پھر اپنے کام کا وبال چکھا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق اور بہترین مصّور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ وہ جانتا ہے جو لوگ ظاہر اور خفیہ طور پر کرتے ہیں اور وہ دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ جو ذات دلوں کی راز اور سب کچھ جانتی ہے اس کی بغاوت کر کے انسان کہاں جا سکتا ہے۔ اس لیے اس نے پہلے نافرمانوں کا انجام بتلا کر دوسروں کو انتباہ کیا ہے کہ اے نافرمان لوگوں کیا تمہیں پہلے لوگوں کے انجام کا علم نہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کئی انداز اختیار فرمائے ہیں۔ ان میں ایک انداز یہ اختیار فرمایا کہ لوگوں کو بار بار دعوت دی کہ وہ اپنے سے پہلی قوموں کے کردار اور انجام پر غور کریں تاکہ وہ برے اعمال کے برے انجام سے بچ جائیں، کبھی ارشاد فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے مجرموں کا کیا انجام ہوا۔ (آل عمران :137) پھر ارشاد ہوا کیا ان کے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جن لوگوں نے اللہ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کیا۔ جب وہ ایک حد سے آگے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پراپنا غضب نازل کیا۔ (طٰہٰ:128) غضب کا مزید اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اپنے کیے کا مزہ چکھو اور قیامت کے دن تمہارے لیے اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ تباہ ہونے والی اقوام کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب ان کے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر ان کی بات کا انکار کیا۔ کیا ہمارے جیسا انسان ہماری راہنمائی کرے گا اور ہم اس کی تابعداری کریں ؟ اس وجہ سے انہوں نے انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت کو ماننے سے انکار کیا اور حق بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوئے، ان کے انکار کے پیچھے تکبر اور ان کی لاپرواہی شامل تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے لاپرواہی کا اظہار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور لائقِ تعریف ہے یہاں جن قوموں کے انجام کا اشارہ کیا گیا ہے ان سے مراد وہی اقوام ہیں جن کے انجام کا قرآن مجید نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں سرفہرست قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم مدین، قوم لوط اور آل فرعون ہیں ان میں ہر قوم نے اپنے نبی کی ذات اور بات کا یہ کہہ کرانکار کیا کہ یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ لہٰذا ہم تیری پیروی نہیں کریں گے۔ یہاں تک ان کے اس بہانے کا تعلق ہے کہ نبی کو بشر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے کئی جواب دیئے ہیں۔ ان میں سے تین جواب یہ ہیں : ” ان کے رسولوں نے کہا ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن اللہ احسان فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل اللہ کے اذ ن کے بغیر لے آئیں۔ پس لازم ہے کہ ایمان والے اللہ پربھروسہ کریں۔“ (ابراہیم :11) مسائل: 1۔ لوگوں کو مجرم اقوام کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ 2۔ مجرم لوگ دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں بھی ان کو اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ 3۔ حقائق کا انکار کرنے والے لوگ انبیاء کے بشر ہونے پر اعتراض کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے کفرو شرک کوئی پرواہ نہیں وہ ہر لحاظ سے بے پرواہ اور لائقِ تعریف ہے۔ تفسیر بالقرآن: تمام انبیاء ( علیہ السلام) بشر تھے : 1۔ انبیاء ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم تمہاری طرح بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم :11) 2۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون :24) 3۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء :154) 4۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جس طرح تم کھاتے ہو، ویسے وہ کھاتا ہے۔ (المومنون :33) 5۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل :43) 6۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء :34) 7۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (الکہف : 110، حم السجدۃ:6) 8۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل :43) (الشعراء :186) 9۔ آپ (ﷺ) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف :110)