سورة المنافقون - آیت 7

هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یہ وہی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں، یہاں تک کہ وہ منتشر ہوجائیں، حالانکہ آسمانوں کے اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور لیکن منافق نہیں سمجھتے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 7 سے 8) ربط کلام : منافقین کی ہرزہ سرائی۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر راستے میں ایک مقام پر صحابہ کرام (رض) نے پڑاؤ ڈالا تو کنویں سے پانی لیتے ہوئے ایک مہاجر اور انصار کے درمیان تکرار ہوگی۔ مہاجر نے انصار کو لات ماری اس بات کا عبداللہ بن ابی کو علم ہوا تو اس نے انصار کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارا ہی کیا دھرا ہے، جنہیں ان کی قوم نے اپنے شہر سے نکال دیا تم نے ان کو مدینہ میں ہر چیز مہیا کی اور آج وہ ہم پر سرداری کر رہے ہیں اگر ان سے نجات پانا چاہتے ہو تو ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرو یہ لوگ بھوک سے تنگ آکر خود بھاگ جائیں گے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ جونہی ہم مدینہ واپس جائیں گے توعزت والا ذلیل شخص کو نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ہرزہ سرائی پر اتنباہ کرتے ہوئے انہیں دوباتیں ارشاد فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کے خزانے صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں لیکن منافق لوگ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔ لیکن منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ اللہ ہی عزت کا مالک ہے اور اسی نے اپنے رسول کو عزت سے سرفراز فرمایا ہے اور وہی مومنوں کو عزت دینے والا ہے۔ خاکم بدھن عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں اور اللہ کے رسول (ﷺ) کو ذلیل کہا تھا۔ اس کے بیٹے جس کا نام بھی عبداللہ تھا اور وہ مخلص مسلمان تھا اس بات کا علم ہوا تو مدینہ پہنچنے پر وہ اللہ کے رسول (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول (ﷺ) ! میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ آپ نے میرے والد کو ان کی سازشوں اور شرارتوں کی وجہ سے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کسی اور کو حکم دینے کی بجائے آپ مجھے حکم دیں کہ میں اسے اپنے ہاتھوں قتل کروں۔ تاکہ کسی کے قتل کرنے پر میرے دل میں کوئی رنجش پیدا نہ ہو۔ اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا : ہم نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ عبداللہ بن ابی کی ہرزہ سرائی کا حضرت عمر کو علم ہوا تو انہوں نے بھی اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی لیکن نبی (ﷺ) نے یہ کہہ کر روک دیا کہ لوگ کہیں گے کہ (أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ﴾) ” محمد (ﷺ) کو اللہ نے قوت عطا فرمائی ہے تو اس نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ہے۔“ مسائل: 1۔ کسی کی ہرزہ سرائی یا مذموم کوشش سے دوسرے کا رزق کم نہیں ہوتا۔ 2۔ زمین و آسمانوں کے خزانے ” اللہ“ ہی کے پاس ہیں۔ 3۔ اللہ ہی عزت دینے والا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور صحابہ کو عزت سے سرفراز فرمایا تھا۔ 5۔ منافق حقیقی سمجھ سے عاری ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے : 1۔ عزت اللہ کے پاس ہے۔ (فاطر :10) 2۔ عزت اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔ (المنافقون :8) 3۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران :26) 4۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج :18) 5۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے لیے ہے وہ ہر بات سننے اور جاننے والا ہے۔ (یونس :65) 6۔ کیا اللہ کے علاوہ عزت تلاش کرتے ہوحالانکہ ہر قسم کی عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (النساء :139) 7۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو نبوت، کتاب، حکومت، رزق اور دنیا بھر میں عزت دی۔ (الجاثیہ :16) 8۔ اللہ ہی لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے والا ہے۔ (آل عمران :26)