وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور جب تو انھیں دیکھے تجھے ان کے جسم اچھے لگیں گے اور اگر وہ بات کریں تو تو ان کی بات پر کان لگائے گا، گو یا وہ ٹیک لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں، ہر بلند آواز کو اپنے خلاف گمان کرتے ہیں۔ یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہ۔ اللہ انھیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : منافقوں کی گفتگو کا انداز۔ منافق کی نیّت میں فطور اور اس کے کردار میں جھول ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اپنی گفتگو میں تصنّع اور تکلّف اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی بات سننے والے کو اس کے کردار کا جھول اور نیت کے فطور کا علم نہ ہوسکے۔ اسی وجہ سے مدینہ کے منافق جب نبی معظم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس طرح تکلّف اور لجاجت کے ساتھ گفتگو کرتے کہ سننے والے کو خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ ہونا پڑتا۔ مدینہ کے منافقین میں سے عبداللہ بن ابی اور کچھ منافق ظاہری تشخص ( PERSONALITY) کے اعتبار سے بھی ایک معقول آدمی نظر آتے تھے۔ اس لیے کچھ مسلمان ان کے ظاہری تشخص اور گفتگو سے متاثر ہوجایا کرتے تھے۔ منافقین کی منافقت واضح کرنے اور ان سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے نبی (ﷺ) کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ منافقین اپنی پُر تکلف گفتگو اور شخصیت سے نبی معظم (ﷺ) کو متاثر کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ جب آپ ان کے وجود کو دیکھتے ہیں تو ان کا رہن سہن اور شان بان سے آپ کو تعجب ہوتا ہے اور جب وہ آپ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں تو آپ اس کو توجہ سے سنتے ہیں حالانکہ یہ آپ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کی حالت اس لکڑی کی مانند ہوتی ہے جسے دیوارکے ساتھ کھڑا کیا گیا ہو۔ یعنی یہ جان بوجھ کر آپ کے سامنے اس طرح بیٹھتے جس سے ان کی بے نیازی اور لاپرواہی ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے دل کی کیفیت یہ ہے کہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں سے ایسی آواز سنائی نہ دے جس سے ان کی گفتار اور کردار کا پول کھل جائے اور ان پر عتاب نازل ہو، یہ دین کے دشمن اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے منافقین کی مزید عادات سے آگاہ فرمایا۔ 1۔ دیکھنے میں عبداللہ بن اُ بی اور اس کے کچھ ساتھی بڑے سنجیدہ اور معزز نظر آتے تھے لیکن نیت، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے بڑے گھٹیا تھے۔ اس لیے نبی (ﷺ) کو ہر حال میں ان سے بچنے کی تلقین کی گئی کیونکہ یہ دین اور مسلمانوں کے دشمن تھے جب آپ کے سامنے بیٹھتے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ وہ آپ کی گفتگو کو نہ صرف توجہ سے سنتے ہیں بلکہ اس کا اثر بھی قبول کرتے ہیں حالانکہ ان کی حقیقت یہ تھی کہ جس طرح ایک لکڑی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہو یہی کیفیت منافقین کی تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے اور آپ کی گفتگو سے متاثر ہونے کا جعلی تاثر دیتے تھے۔ 2۔ منافقین کی حالت یہ ہے کہ مدینہ میں کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ کہیں ان کی سازش اور شرارت بے نقاب نہ ہوجائے۔ گویا کہ یہ دل کے قرار اور طبیعت کے سکون سے محروم ہوچکے ہیں جس وجہ سے ہر وقت اپنے کیے پر خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ جسے قرآن مجید نے دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ ﴿وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْن﴾ (البقرۃ:15) ” یہ اپنی نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔“ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے لیے ” قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” اللہ“ انہیں ہلاک کرے۔ عربی زبان میں یہ الفاظ بددعا اور کسی سے نفرت دلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ یہاں انہی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ مسائل: 1۔ بعض منافق اور کافر دیکھنے میں بڑے سنجیدہ اور سیدھے سادھے اور بھولے بھالے نظر آتے ہیں۔ 2۔ منافق اپنی نیت کے فطور اور برے کردار کو اپنی گفتگو سے چھپایا کرتا ہے۔ 3۔ منافق دین اور مسلمانوں کا دشمن ہوتا ہے اس لیے اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ 4۔ منافق اپنے کردار کی وجہ سے ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ منافق کی نشانیاں جاننے کے لیے صفحہ 121دیکھیں!