إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم شہادت دیتے ہیں کہ بلاشبہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ بلاشبہ تو یقیناً اس کا رسول ہے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ یہ منافق یقیناً جھوٹے ہیں۔
فہم القرآن: ربط سورت : اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں دنیا کے معاملات اور فائدے کو مقدم سمجھنا عملی طور پر منافقت کرنے کے برابر ہے۔ اس لیے سورۃ جمعہ کے بعد سورۃ منافقون رکھی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کو ہر قسم کی منافقت سے بچنے کی تعلیم دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک منافق اس قدر برا ہے کہ اس کے کلمہ پڑھنے پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ فہم القرآن کے دو مقامات پر یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے۔ نَفق چوہے یا لومڑ کی ایسی بل کو کہتے ہیں جس کے دوراستے ہوں۔ منافق اپنے گفتار اور کر دار کے لحاظ سے دوغلا ہوتا ہے جس وجہ سے اسے منافق کہا جاتا ہے منافق اپنی زبان سے وہ دعویٰ کرتا ہے جس پر اس کا اعتقاد اور ایمان نہیں ہوتا۔ اسی لیے قرآن مجید نے منافق کے ایمان اور اس کی گواہی کی تردید کی ہے۔ نبی (ﷺ) کے دور میں منافقوں کی یہ حالت تھی کہ جب مسلمانوں کے پاس آتے تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو ان کے ساتھی بن جاتے تھے۔ ﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ﴾ (البقرۃ:14) ” جب منافق ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان دار ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بلا شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔“ منافقین کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان کی تردید کی جارہی ہے کہ اے رسول (ﷺ) ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ ہاں آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ منافقین کے جھوٹے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ سمع و اطاعت میں آپ (ﷺ) کو رسول نہیں مانتے۔ البتہ محض دنیا کے فائدے کی خاطر آپ کی نبوت کی شہادت دیتے ہیں۔ یادرہے! کہ ایمان میں تین باتوں کا ہونا ضروری ہے ان میں کوئی ایک بات نہ ہو تو انسان منافق ہوگا یا پھر کافر۔ کافر اور منافق میں فرق یہ ہے کہ کافر کھلے بندو اپنے کفر کا اظہار کرتا ہے اور منافق اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَائِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ مسائل: 1۔ منافق اپنی زبان سے نبی (ﷺ) کی رسالت کی شہادت دیتے تھے لیکن دل میں آپ کی رسالت کے منکر تھے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ (ﷺ) کو نبی اور رسول بنایا بلکہ آپ کی رسالت کی شہادت بھی دی ہے۔ 3۔ منافق اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: منافق کی عادات کا مختصر بیان : 1۔ منافق دعویٰ ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں ہوتا۔ ( البقرۃ:8) 2۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ( النساء :142) 3۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ایمان کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون :1) 4۔ منافقین نے ایمان کا اظہار کرنے کے باوجود کفر اختیار کیے رکھتے ہیں۔ ( المنافقون :3) 5۔ منافق اپنے ایمان کے بارے میں جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبہ :56) 6۔ منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ:9) ( المنافقون :1)