بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ المنافقون کا تعارف : المنافقون کا لفظ اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس کی گیارہ آیات اور دو رکوع ہیں۔ یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ مدینہ میں اوس اور خزرج کے نام پر انصار کے دو بڑے قبیلے تھے باقی لوگ انہیں قبیلوں کی شاخیں اور حلیف تھے۔ اوس اور خزرج کے درمیان طویل مدت تک قتل و غارت کا بازار گرم تھا جس میں سیکڑوں جانیں تلف ہوچکی تھیں۔ جب ان کی لڑائی سے لوگ تنگ آ گئے اور اوس اور خزرج بھی تھک گئے تو بالآخر ان میں صلح ہوگئی۔ اس کے بعد دونوں قبیلوں کے سربرآورہ لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خزرج قبیلے کے عبداللہ بن ابی کو مدینے کا سربراہ بنا لیا جائے اس کے لیے اس کی تاج پوشی کی تیاریاں شروع ہو کردی گئیں، اسی مدت کے دوران حج کے موقع پر نبوت کے گیا رویں سال مدینہ طیبہ کے لوگ حج کے لیے مکہ آئے انہوں نے نبی (ﷺ) کی دعوت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آپ (ﷺ) کی ذات اور دعوت کے متعلق اطمینان پانے پر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے نبی (ﷺ) سے درخواست کی کہ آپ (ﷺ) ہمارے ہاں ایک ایسا مبلغ بھیجیں جو مدینہ طیبہ میں دین اور توحید کی دعوت دے ہم اس کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے۔ نبی (ﷺ) نے معصب بن عمیر (رض) کو ان کے ساتھ بھیجا دعوت کی کشش اور حضرت مصعب بن عمیر (رض) کی محنت سے اگلے سال حج کے موقع پر ٧٥ مسلمان نبی (ﷺ) سے ملے جس سے مدینہ طیبہ کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے اور جو لوگ عبداللہ بن ابی کو اپنا سربراہ منتخب کرنے والے تھے انہوں نے نبی (ﷺ) کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ نبوت کے تیرہویں سال آپ (ﷺ) مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کا پہلا نام یثرب تھا آپ کی تشریف آوری اور اسلام کی بڑھتی اشاعت کی وجہ سے لوگوں نے یثرب کا نام مدینہ الرّسول رکھ دیا۔ نبی (ﷺ) کی آمد سے عبداللہ بن ابی کی سر براہی ختم ہوگئی اس نے حالات کا جائزہ لیا تو مجبور ہو کر بظاہر مسلمان ہوا لیکن زندگی بھر حسد و بغض کا شکار ہوگیا۔ اس نے کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑا کہ جب اعلانیہ یا خفیہ طور پر نبی (ﷺ) کی مخالفت نہ کی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) پر الزام لگانے میں یہ شخص پیش پیش تھا، اس نے منافقوں کو منظم کرنے کے لیے مدینہ میں مسجد ضرار کی بنیاد رکھی جسے نبی (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسمار کردیا۔ تبوک کے محاظ سے واپسی پر اس کے ساتھیوں نے رات کے اندھیرے میں نبی (ﷺ) پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس سے آپ محفوظ رہے۔ اسی سفر میں واپسی پر ایک صحابی اور منافق کے درمیان کسی معاملے پر تکرار ہوئی جسے دوسرے ساتھیوں نے موقعہ پر رفع دفع کردیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے اسے اچھالتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو ہم مدینہ جا کر ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے جس کی تفصیل اس سورت کی آٹھویں آیت میں ذکر کی گئی ہے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو جب بھی احساس دلایا جاتا کہ تمہیں ان حرکتوں سے باز آنا چاہیے اور اپنے کیے پر معذرت کرنی چاہیے تو وہ جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنی صفائی پیش کرتا اور ایک موقعہ پر اس نے یہاں تک ہرزہ سہرائی کی کہ مجھے سب کچھ منظور ہے لیکن میں نبی سے معذرت نہیں کروں گا۔