سورة الجمعة - آیت 1

يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کا پاک ہونا بیان کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، (جو) بادشاہ ہے، بہت پاک ہے، سب پر غالب ہے، کمال حکمت والا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 1 سے 3) ربط سورت : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے رد عمل میں بنی اسرائیل دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک جماعت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی اور دوسرے گروہ نے ان کا انکار کردیا۔ سورۃ الجمعہ کی ابتدا ” سَبَّحَ“ کے پرجلال لفظ سے کی گئی ہے جس کا معنٰی اور مفہوم یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ذات کو مانے یا نہ مانے اسے یاد کرے یا اس کا انکار کرے وہ تو وہ ہستی ہے جسے زمین و آسمانوں کی ہر چیز ان الفاظ میں یاد کرتی ہے کہ ” اللہ“ کلی اختیارات کا مالک اور ہرقسم کی حاجت اور نقص سے پاک ہے۔ ہر نقص اور حاجت سے مبرّا ہونے کے ساتھ ہر اعتبار سے پوری کائنات پر غالب ہے۔ اس کے غالب ہونے میں صرف قوت ہی نہیں بلکہ حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اس کی قوت اور حکمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے اَن پڑھ لوگوں میں سے ایک شخص کو رسول بنایا ہے جو ان کے سامنے اس کے فرمان پڑھتا ہے اور ان کے عقائد، اخلاق اور کردار کو پاکیزہ بناتا ہے۔ افکار و نظریات، اخلاق اور کردار کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ یہ رسول ان لوگوں کے لیے بھی بھیجا گیا ہے جو ابھی تک مسلمانوں سے نہیں ملے۔ رسول کا پیغام آنے والے لوگوں تک پہنچانے اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ شامل کرنے پر اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی (ﷺ) آئندہ نسلوں کے لیے بھی رسول ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے ساتھ نہیں ملے۔ مسلمانوں کے ساتھ نہ ملنے والے لوگوں میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو اس زمانے میں ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، دوسرے وہ لوگ ہیں جو نبی (ﷺ) کے بعد پیدا ہوں گے آپ (ﷺ) کو ان سب کے لیے رسول بنایا گیا ہے گویا کہ آپ ہر دور کے لوگوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ آپ کے بعد نہ کوئی رسول آیا ہے اور نہ ہی آئے گا کیونکہ آپ کے بعد کسی رسول کی ضرورت نہیں۔ اس مقام پر یہ ارشاد ہوا کہ جن لوگوں میں نبی (ﷺ) مبعوث کیے گئے وہ لوگ اَن پڑھ تھے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے کہ آپ (ﷺ) ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ ہیں۔ اُمی کے مفسرین نے چار معانی بیان کیے ہیں۔ 1۔ آپ (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شخص سے نہ سیکھا نہ پڑھا اس لیے آپ (ﷺ) اُمی ہیں۔ 2۔ آپ مکہ کے شہر میں پیدا ہوئے جسے قرآن مجید نے امّ القرایٰ قرار دیا ہے اس نسبت سے آپ امی ہیں۔ 3۔ آپ بنی اسماعیل میں سے ہیں کیونکہ نبوت ہمیشہ بنی اسرائیل میں رہی ہے اس لیے اہل کتاب بنی اسماعیل کو امی کہتے ہیں گویا کہ امی سے مراد بنی اسماعیل میں نبی۔ 4۔ آپ قیامت کے روز سب سے بڑی امت کے نبی ہوں گے اس لیے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس بنا پر آپ کو ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس قدر احسانات فرمائے ہیں کہ وہ ان کا شمار کرنا چاہے تو جدید مشینری کے ذریعے بھی انہیں شمار نہیں کرسکتا۔ تمام احسانات و انعامات میں سب سے بڑا احسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ ہدایت کا مؤثر، مدلّل، قابل اعتماد ذریعہ اور نمونہ انبیاء کی شخصیات ہیں۔ ان شخصیات میں سب سے ممتاز شخصیت رسول محترم (ﷺ) کی ذات گرامی ہے آپ آخری نبی ہیں آپ نے انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے لیے سب سے بڑھ کر کوششیں اور تکلیفیں اٹھائیں۔ اس لیے مومنوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہے کہ اس نے تم ہی سے یعنی انسانوں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا ہے جو تمہارے اپنے آپ سے بھی تم پر زیادہ مہربان ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔ (التوبہ :128) اس کی شب و روز کی محنتیں، صبح و شام کی دعائیں اور ہر وقت یہ تمنا اور خواہش ہے کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنائے، گناہوں اور جرائم سے پاک کرے اور تمہیں کتاب و حکمت کے ذریعے دنیا و آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرے۔ نبی آخرالزماں (ﷺ) کی تشریف آوری اور آپ کی تعلیمات سے پہلے تم سراسر گمراہی اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ آپ کی کوششوں اور محبت و اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آج انسانیت نے اپنا مقام پایا، غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی‘ عورتوں کو حقوق ملے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا طریقہ اور دنیا میں رہنے سہنے کا سلیقہ آیا۔ یہ رب کریم کا لوگوں پر عظیم ترین احسان ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ان کی عقل پر چھوڑ دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے حضرت محمد (ﷺ) جیسا عظیم اور بے مثال رسول مبعوث فرمایا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول معظم (ﷺ) کی بعثت سے پہلے انسانیت ہر قسم کی جہالت اور تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ خصوصاً عرب اور اہل مکہ کی حالت یہ تھی کہ یہاں کے دانشور اس سوچ میں غلطاں رہتے تھے کہ ہم تاریکیوں سے کس طرح نجات پائیں۔ اسی کے نتیجے میں حلف الفضول کا معاہدہ طے پایا جس میں اہل دانش نے بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ابن ہشام) اسی سلسلہ کی دوسری کڑی یہ تھی کہ ایک موقع پر ورقہ بن نوفل‘ زید بن عمرو مزید نام لکھنے اور چند دوسرے لوگ حرم میں بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ تمام مروجہ مذاہب کا جائزہ لے کر طے کیا جائے کہ کونسا مذہب سچا ہے؟ اس کے لیے یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجے میں ورقہ بن نوفل عیسائیت کے قریب ہوئے اور کچھ نے یہودیت کو مناسب سمجھا۔ حضرت سعید (رض) کے والد اور حضرت عمر (رض) کے ماموں جناب زید بن عمرو نے سب سے براءت کا اعلان کیا۔ وہ بیت اللہ میں سجدہ ریز ہو کر زاروقطار روتے ہوئے دعا کرتے کہ اے کعبہ کے رب! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری عبادت اس طرح کرنی ہے تو میں اسی طرح کرنے کو تیار ہوں لیکن آسمانی ہدایت مفقود ہوجانے کی وجہ سے وہ دین کی روشنی سے محروم رہے اس کے متعلق ایک سوال کے جواب میں رسول کریم (ﷺ) نے فرمایا : (نَعَمْ إِنَّہٗ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً) کیوں نہیں! وہ ایک امت کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ (ابن ہشام) آپ (ﷺ) کی آمد سے قبل کی جہالت اور تاریکی کی نشاندہی کرتے ہوئے حضرت علی (رض) کے برادر مکرم حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب نے حبشہ کے حکمران کے سامنے اس کا یوں اعتراف کیا تھا : (فَکَانَ الَّذِی کَلَّمَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) فَقَالَ لَہ أَیُّہَا الْمَلِکُ کُنَّا قَوْمًا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ وَنَأْکُلُ الْمَیْتَۃَ وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ وَنُسِیءُ الْجِوَارَ وَیَأْکُلُ الْقَوِیُّ مِنَّا الضَّعِیفَ فَکُنَّا عَلَی ذَلِکَ حَتَّی بَعَثَ اللَّہُ إلَیْنَا رَسُولًا مِنَّا نَعْرِفُ نَسَبَہُ وَصِدْقَہُ وَأَمَانَتَہُ وَعَفَافَہُ فَدَعَانَا إلَی اللَّہِ لِنُوَحِّدَہُ وَنَعْبُدَہُ وَنَخْلَعَ مَا کُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ الْحِجَارَۃِ وَالْأَوْثَانِ وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِیثِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَۃِ وَصِلَۃِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْکَفِّ عَنْ الْمَحَارِمِ وَالدِّمَاءِ وَنَہَانَا عَنْ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزُّورِ وَأَکْلِ مَالِ الْیَتِیمِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّہَ وَحْدَہُ لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا وَأَمَرَنَا بالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّیَامِ) (سیرت ابن ہشام) ” وہ کلمے جو حضرت جعفر (رض) نے نجاشی کو کہے تھے وہ یہ تھے اے نجاشی ہماری قوم جاہل تھی ہم میں بتوں کی عبادت، مردار کھانا، فحاشی کرنا، رشتے داریوں کو توڑنا، پڑوسیوں کو تنگ کرنا اور طاقت وار لوگوں کا کمزوروں پر ظلم کرناجیسی بیماریاں پائی جاتی تھیں ہم یہ کام کر رہے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ہم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہم اس کا نسب، صداقت، امانت داری اور معاف کرنا جیسی صفات جانتے تھے اس نے ہمیں ایک اللہ کی دعوت کی عبادت کی طرف بلایا اور ہمیں بتوں اور پتھروں کی عبادت سے روکا اور اس کی عبادت سے جس کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت کو اس کی مالک کی طرف لوٹانے، صلہ رحمی کرنے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا اور ہمیں حرام کھانے، کسی کا ناحق خون بہانے، فحاشی کرنے، بری باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور پاک دامنہ عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں اور اس نے ہمیں نماز پڑھنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور روزے رکھنے کا حکم دیا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ () فَأُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْجُمُعَۃِ ﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ﴾ قَالَ قُلْتُ مَنْ ہُمْ یَا رَسُول اللّٰہِ فَلَمْ یُرَاجِعْہُ حَتَّی سَأَلَ ثَلاَثًا وَفِینَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ وَضَعَ رَسُول اللّٰہِ () یَدَہُ عَلَی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ کَانَ الإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہُ رِجَالٌ، أَوْ رَجُلٌ مِنْ ہَؤُلاَءِ) (رواہ البخاری : باب قَوْلُہُ ﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی تو ہم آپ (ﷺ) کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ﴿وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ﴾ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ (ﷺ) نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں حضرت سلمان فارسی (رض) بھی موجود تھے۔ آپ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو اس کے قبیلے کے لوگ وہاں بھی پہنچ جاتے۔ آپ (ﷺ) اہل مکہ اور صرف اس دور کے لیے نبی نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے نبی مبعوث کیے گئے ہیں؟ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَائِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْئًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ) (رواہ احمد : مسند ابی ذر) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (ﷺ) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ 1۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ 2۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ 3۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ 4۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ 5۔ مجھے ( قیامت کے دن) کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ مسائل: 1۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حاجت اور نقص سے مبرّا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر پوری طرح اختیار رکھتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں حکمت پائی جاتی ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (ﷺ) کو اَ ن پڑھ لوگوں میں مبعوث فرمایا۔ 6۔ نبی (ﷺ) بھی ایک انسان تھے۔ 7۔ نبی (ﷺ) اللہ کی آیات کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرتے، انہیں قرآن مجید کی تعلیم سے آراستہ کرتے اور انہیں دانائی کی باتیں بتلایا کرتے تھے۔ 8۔ نبی (ﷺ) کی تشریف آوری سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ 9۔ نبی (ﷺ) ان لوگوں کے لیے بھی رسول منتخب کیے گئے جو آپ کے بعد پیدا ہوئے اور ہوں گے۔ تفسیربالقرآن : نبی (علیہ السلام) کی نبوت کے مرکزی مقاصد : 1۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ:151) 2۔ آپ (ﷺ) کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ:2) 3۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں نبوت کے فرائض کا تذکرہ۔ (البقرۃ:129) 4۔ رسول اللہ (ﷺ) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور انہیں غلامی سے نجات دلانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف :157) 5۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164) 6۔ آپ (ﷺ) لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب :45) 7۔ آپ (ﷺ) کو ہدایت کا سورج بنایا گیا۔ (الاحزاب :46) 8۔ آپ (ﷺ) رؤف الرحیم تھے۔ (التوبۃ :128) 9۔ رسول اللہ (ﷺ) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف :158) 10۔ رسول اللہ (ﷺ) سب کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 11۔ آپ (ﷺ) رحمت عالم تھے۔ (الانبیاء :107) 12۔ آپ (ﷺ) آخری نبی ہیں۔ (الاحزاب :40)