يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّهِ ۖ فَآمَنَت طَّائِفَةٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَت طَّائِفَةٌ ۖ فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَىٰ عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے کفر کیا، پھر ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے تھے، ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب ہوگئے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس حکم سے پہلے مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا کی کامیابی کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا، دنیا کی کامیابی اور جنت کا حصول تب ممکن ہے جب مسلمان صرف ” اللہ“ کی خاطر جہاد کریں گے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کے مترادف ہے اسی کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ کون اللہ کے لیے میری مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ حواریوں نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں۔ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے کفر اختیار کیا۔” اللہ“ نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد فرمائی جس سے ایماندار غالب ہوئے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی دینا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام کیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ یہودیوں نے انجیل کی تعلیم کو ختم کرنا چاہا لیکن اللہ نے انجیل کی تعلیمات کو عام کیا اور ہمیشہ کے لیے یہودیوں کو عیسائیوں کا دست نگر بنا دیا۔ اگر مسلمان ” اللہ“ کے دین کی مدد کریں گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہودیوں، عیسائیوں، مشرکین اور کفار پر غالب فرمائے گا کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ مسلمانو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کی مدد کرنا اس کے دین کی مدد کرنا ہے۔ ﴿یاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ﴾ (محمد :7) ” اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا۔“ ﴿قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرۃ:249) ” اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی سی جماعت بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ مسائل: 1۔ ٍایمانداروں کو اللہ کے دین کی اس طرح ہی مدد کرنی چاہیے جس طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریوں نے ان کی مدد کی تھی۔ 2۔ بنی اسرائیل سے ایک جماعت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لائی اور دوسرے لوگوں نے کفر اختیار کیے رکھا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی مدد کرتا ہے جس وجہ سے وہ اپنے دشمن پر غالب آتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایمانداروں کی مدد فرمائی : 1۔ غار ثور میں نبی (ﷺ) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ :40) 2۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران :123) 4۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( الاحزاب :9) 5۔ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (التوبہ :25) 6۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( النصر :1) 7۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران :126) 8۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس ( جبرائیل (علیہ السلام) سے مدد فرمائی۔ (البقرۃ:87) 9۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص :5) 10۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی اور کمزور جماعتوں کو بڑی جماعتوں پر غالب فرمایا۔ (البقرۃ:249)