هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ ہے، نہایت پاک، سلامتی والا، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنی مرضی چلانے والا، بے حد بڑائی والا ہے، پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات کا بیان جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں کیونکہ وہی ان عظیم صفات کا مالک ہے کوئی نہیں جو اس جیسی صفات کا حامل ہو لہٰذا وہ لوگوں کے بنائے ہوئے ہر قسم کے شریکوں سے مبرا اور پاک ہے۔ وہ اَلْمَلِکُ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلاَمُ، اَلْمْؤْمِنُ، اَلْمُہَیْمِنُ، الْعَزِیْزُ، اَلرَّحِیْمُ، اَلْجَبَّار اور اَلْمُتَکَبِّرُ ہے۔ اَلْمَلِکُ : اللہ ہی حقیقی اور دائمی بادشاہ اور مالک ہے اس کے سوا کوئی حقیقی اور دائمی بادشاہ اور مالک نہیں، وہ جسے چاہے بادشاہی عطا فرمائے اور جس سے چاہے اس کی بادشاہی چھین لے اس کے اذن کے بغیر کوئی بادشاہ نہیں بن سکتا ہے۔ ” کہیں اے اللہ! ساری کائنات کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت عطا فرمائے اور جسے چاہے ذلت دے تیرے ہی ہاتھ میں ہر قسم کی خیر ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ (آل عمران :26) اَلْقُدُّوْسُ : اس نام میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہستی ہے جو ہر عیب، نقص، برائی اور ظلم سے پاک ہے۔ اس سے زیادہ کوئی ہستی پاک نہیں۔ وہی لوگوں کو گناہوں سے پاک کرنے والا ہے۔ نبی (ﷺ) تہجد کی نماز میں سجدے کی حالت میں یہ تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ أَنَّ عَائِشَۃَ نَبَّأَتْہُ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کَانَ یَقُولُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَئِکَۃِ وَالرُّوحِ) (صحیح مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ) ” حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بتایا کہ نبی اکرم (ﷺ) رکوع اور سجدے میں یہ دعاپڑھا کرتے تھے۔ ملائکہ اور جبرائیل امین کے رب ہر قسم کی تسبیح وتقدیس تیرے لیے ہے۔“ اَلسَّلاَمُ : اللہ تعالیٰ ہر نقصان اور کمزوری سے محفوظ ہے نہ اس کی ذات کو کسی قسم کی کمزوری لاحق ہوتی ہے اور نہ اس کی صفات میں ضعف واقع ہوتا ہے۔ وہ ہر حال میں السلام ہے اور سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی سلامتی عطا نہیں کرسکتا ہے اس لیے ہر حال میں اسی سے سلامتی طلب کرنی چاہیے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ) (رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ وَبَیَانِ صِفَتِہِ) ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور یہ دعا پڑھتے۔ ” اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَام“ ” اے اللہ تو سلامتی والاہے اور سلامتی تجھی سے حاصل ہوتی ہے بے شک تو بابرکت اور جلال واکرام والا ہے۔“ اَلْمْؤْمِنُ: ہرقسم کے خوف و خطر سے محفوظ ہستی صرف ” اللہ“ کی ذات ہے اسے برے کی برائی اور بڑے کی بڑائی سے کوئی خطرہ نہیں، نہ صرف خود ہر اعتبار سے المؤمن ہے بلکہ ہر کسی کو امن دینے والا ہے۔ اَلْمُہَیْمِنُ : ہر کسی کی نگرانی اور نگہداشت کرنے والا۔ ایسا نگران کہ نہ اس سے سے کوئی چیز پوشیدہ ہے اور نہ اپنی مخلوق کی نگرانی کرنے سے تھکتا ہے اور اس کی نگرانی اور نگہبانی سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ ” اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟ وہ جانتا ہے جو لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور لوگ اس کے علم سے کچھ نہیں لے سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ بہت بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔“ (البقرۃ:255) الْعَزِیْزُ: ایسی ذات جس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا وہ اپنے فیصلے صادر اور نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے اور کسی کے تعاون کا محتاج نہیں۔ وہ کسی کو پکڑنا چاہے تو کوئی اسے چھڑا نہیں سکتا، کسی کو بچانا چاہے تو کوئی اسے گزند نہیں پہنچا سکتا وہ کسی کو دینے کا فیصلہ کرلے تو کوئی روک نہیں سکتا اگر کسی سے کوئی چیز لینا چاہے تو کوئی اسے ٹوک نہیں سکتا۔ ” اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ (رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ) اَلْجَبَّارُ : الجبار کا معنٰی جبر کرنے والا۔ یاد رہے کہ وہ ظالموں اور باغیوں کے لیے جبار ہے لیکن مومنوں کے لیے الرّحمن اور الرحیم ہے۔ جس طرح اس سے بڑھ کر کوئی جبار نہیں اسی طرح اس سے بڑھ کر کوئی مہربان نہیں ہے۔ جب اپنے جبر کا استعمال کرتا ہے تو وقت کا فرعون بھی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ اس کی جباری سے ہر دم پناہ مانگنا چاہیے۔ اَلْمُتَکَبِّرُ : متکبر کا لفظ کبر سے نکلا ہے جس کا معنٰی ہے بڑا ہونا یا بڑا بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہونا اس کی ایک عظیم صفت ہے وہ اپنی ذات، صفات اور مقام کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔ کوئی اس کی ذات، صفات، اقتدار، اختیارات اور مقام میں اس سے بڑا نہیں۔ مخلوق کا اپنی حد سے بڑھ کر بڑا بننا گناہ ہی نہیں پرلے درجے کا جرم ہے۔ (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) عَنِ النَّبِی (ﷺ) قَال مَنْ قَال حینَ یُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّات أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَرَأَ ثَلَاثَ آیَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْحَشْرِوَکَّلَ اللَّہُ بِہِ سَبْعِینَ أَلْفَ مَلَکٍ یُصَلُّونَ عَلَیْہِ حَتَّی یُمْسِیَ وَإِنْ مَاتَ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ مَاتَ شَہِیدًاوَمَنْ قَالَہَا حینَ یُمْسِی کَانَ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَۃ) (رَوَاہ التِّرْمِذِیُّ وَقَال التِّرْمِذِی ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس شخص نے صبح کے وقت تین مرتبہ ان کلمات کا ورد کیا ” میں سننے والے اور جاننے والے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے اور اس کے بعد سورۃ الحشر کی آخری تین آیات پڑھیں، اللہ تعالیٰ ستر ہزار (70000) فرشتے مقرر کردیتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں حتی کے شام ہوجاتی ہے اگر وہ اس دوران مر جائے تو اسے ” اللہ“ کی راہ میں شہید ہونے کا ثواب ملے گا اور جس نے یہ کلمات شام کے وقت بھی پڑھ لیے اسے بھی یہی اجر حاصل ہوگا۔“ اللہ ہی ظاہر اور باطن کو جاننے و الا، وہی سب سے بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا، وہی اَلْمَلِکُ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلْمُؤْمِنُ، اَلْمُہَیْمِنُ، اَلْعَزِیْزُ، اَلْجَبَّارُ اور اَلْمُتَکَبِّرُ ہے۔ بتاؤ ! ان میں کون سی صفت ہے جو اس کی مخلوق میں اس درجے میں پائی جاتی ہے۔ جب کسی کی ایک صفت بھی اس کی کسی صفت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو پھر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرنا کتنی بڑی ناانصافی ہے۔ بس اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے تو پھر کیوں نہیں مانتے؟ مسائل: 1۔ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھی صفت کے مالک ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والوں سے بری ہے۔