سورة الحشر - آیت 11

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے منافقت کی، وہ اپنے ان بھائیوں سے کہتے ہیں جنھوں نے اہل کتاب میں سے کفر کیا، یقیناً اگر تمھیں نکالا گیا تو ضرور بالضرور ہم بھی تمھارے ساتھ نکلیں گے اور تمھارے بارے میں کبھی کسی کی بات نہیں مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ضرور بالضرور ہم تمھاری مدد کریں گے اور اللہ شہادت دیتا ہے کہ بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت 11 سے 13) ربط کلام : مخلص مسلمانوں کی خدمات کے ذکر کے بعد منافقین کا ذکر۔ بنونضیر کی بدعہدی اور مسلسل سازشوں کی وجہ سے اللہ کے رسول نے انہیں ان کے علاقے سے دس دن کے اندر نکل جانے کا حکم دیا۔ بنو نضیر اپنا علاقہ چھوڑنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے پیغام بھیجا کہ تمہیں اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر محمد (ﷺ) نے آپ کی طرف پیش قدمی کی تو میں دوہزار ساتھیوں اور فلاں فلاں قبائل کے ساتھ مل کر تمہاری مدد کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور بنو نضیر کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے نبی (ﷺ) کو ارشاد فرمایا کہ کیا آپ نے منافقوں کی اس بات اور چال پر غور نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے کافر بھائیوں جو اہل کتاب میں سے ہیں کہا کہ اگر انہیں جلاوطن کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور تمہارے بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں مانیں گے۔ یعنی جنگ ہوئی تو ہم ہر صورت تمہاری مدد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ جب بنونضیر کو ان کے علاقہ سے نکال دیا جائے گا تو منافق نہ مدینہ چھوڑ کر ان کے ساتھ جائیں گے۔ اگر بنو نضیر کی مسلمانوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوگئی تو منافق ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بالفرض کچھ منافق بنونضیر کی مدد کے لیے نکل پڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ اس صورت میں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اے مسلمانو! منافق اور یہودی اس لیے مقابلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ اللہ سے زیادہ تم سے ڈرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ حقیقی سمجھ سے عاری ہوچکے ہیں، حقیقی سمجھ یہ ہے کہ انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی اور منافقت چھوڑ دے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو منافقین کی سازش اور بزدلی سے پہلے ہی آگاہ کردیا۔ 4۔ حقیقی سمجھ کا تقاضا ہے کہ انسان صرف ” اللہ“ سے ڈرتا رہے۔ 2۔ منافق مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کرنے کی بجائے عام طور پر چھپ کر مخالفت کرتا ہے۔ 5۔ منافق اپنے وعدے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ 3۔ منافق اور کفار اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ سے ڈرنا چاہیے : 1۔ مومنوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (البقرۃ:150) 2۔ اللہ کے بندے صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ (المائدۃ:28) 3۔” نبی“ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ (یونس : 15، الزمر :3) 4۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور :52)