سورة الحديد - آیت 18

إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلاشبہ صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں اور جنھوں نے اللہ کو اچھا قرض دیا، انھیں کئی گنا دیا جائے گا اور ان کے لیے باعزت اجر ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔ سورۃ الحدید کی آیت 7سے لے کر 18تک سات مرتبہ انفاق اور قرض کے نام پر صدقہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں وہ مرد ہوں یا عورتیں جو بھی ایمان اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں انہیں دوگنا واپس کرنے کے ساتھ اجر کریم سے نوازا جائے گا۔ قرض حسنہ سے مرادایسا قرض ہے جس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔ 1۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔2۔ رزق حلال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کیے ہوئے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔3۔ صدقہ کرنے والا کا اللہ اور اس کے رسول پرخالص ایمان ہونا چاہیے۔ 4۔ جسے صدقہ دیا جائے نہ اس پر احسان جتلایا جائے اور نہ اسے تکلیف دی جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ﴿یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا﴾ وَقَالَ ﴿یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ﴾۔۔) (رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : بے شک اللہ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤاور نیک عمل کرو۔“ ﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ:261) ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل: 1۔ صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں ” اللہ“ انہیں دوگنا عنایت کرے گا۔ 2۔ صدقہ کرنے والا ” اللہ“ کو قرض دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اجر کریم سے ہمکنار فرمائے گا۔ 3۔ قرض حسنہ وہ ہے جس میں احسان جتلانا اور تکلیف دینا شامل نہ ہو۔ تفسیر بالقرآن: صدقہ کرنے والوں کا مقام اور انجام : 1۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ:261) 2۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن :17) 3۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف :88) 4۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ :99) 5۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 6۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد :22) 7۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134)