وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور تمھیں کیا ہے تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، جب کہ آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جس نے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور جنگ کی وہ (یہ عمل بعد میں کرنے والوں کے) برابر نہیں۔ یہ لوگ درجے میں ان لوگوں سے بڑے ہیں جنھوں نے بعد میں خرچ کیا اور جنگ کی اور ان سب سے اللہ نے اچھی جزا کا وعدہ کیا ہے اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، خوب باخبر ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کا یہ اہم اصول ہے کہ لوگوں کو عسر، یُسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ جو لوگ تنگی کے وقت خرچ کرتے ہیں وہ خوشحالی میں خرچ کرنے والوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی ابتدا میں ارشاد ہوا کہ ” الٓمّ“ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں یہ برائی سے بچنے والوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے اس سے ہدایت پانے والے لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں گویا کہ یہ ایمانیات کا بنیادی جز ہے کہ انسان زکوٰۃ کے علاوہ بھی حسب استعداد اللہ کے راستے میں خرچ کرتا رہے۔ یہاں خرچ کرنے سے مراد جہاد فی سبیل اللہ کے لیے خرچ کرنا ہے۔ قرآن مجید اکثر مقامات پر جہاد بالنفس کی بجائے جہاد بالمال کا پہلے ذکر کرتا ہے جس کے دو سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بخل ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ بخیل آدمی ہر چیز سے زیادہ مال سے محبت کرتا ہے، جو لوگ مال سے زیادہ محبت کرتے ہیں وہ لڑنے سے کترایا کرتے ہیں دوسرا سبب واضح ہے کہ ہر مجاہد اپنے پاس مال نہیں رکھتا اور مال کے بغیر جہاد جاری نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ مجاہد کو کھانے پینے کے ساتھ سواری اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں مسلمانوں کو بخل سے بچانے کے لیے حکم ہوا ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ سوچو اور غور کرو کہ زمین و آسمانوں کی میراث حقیقی اور دائمی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، تمہیں تو ایک محدود حد کے اندر وارث بنایا گیا ہے۔ یادرکھو کہ جس نے الفتح سے پہلے انفاق اور قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیا وہ اس کے بعد انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں سے کردار اور درجے میں اعلیٰ ہیں، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے ساتھ اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہوتا ہے۔ الفتح کے بارے میں اہل علم نے تین مؤقف اختیار کیے ہیں۔ (1)۔ الفتح سے مراد مکہ کی فتح ہے۔ (2)۔ الفتح سے مراد صلح حدیبیہ سے پہلے کے غزوات ہیں۔ (3)۔ الفتح سے مراد غزوہ تبوک ہے۔ انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کے ادوار کی تقسیم کے باوجود تمام صحابہ بعد میں آنے والے مسلمانوں سے انفاق اور کردار کے اعتبار سے افضل ہیں اور حضرت صدیق اکبر (رض) پوری امت سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ (عن عِمْرَانَ بن حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ) ( رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (ﷺ) نے فرمایا : تم سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کے بعد والوں کا اور پھر ان کے بعد کے لوگوں کا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ۔) (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بکر) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا : میرے اصحاب (رض) کو برا نہ کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو صحابہ کرام (رض) کے مد (نصف کلو گرام تقریبا) اور آدھے مد (چوتھائی کلو گرام) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّیِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا یُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے : (اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ) (رواہ البخاری : باب إتقوا النار ولوبشق تمرۃ ) ” لوگوآگ سے بچو ! اگرچہ تمہیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ) (رواہ البخاری : باب لاَ صَدَقَۃَ إِلاَّ عَنْ ظَہْرِ غِنًی) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضروریات پوری کر کے دیا جائے اور خرچ کرنے میں اپنے اہل وعیال سے آغاز کرنا چاہیے۔“ مسائل: 1۔ مسلمانوں کو ہر حال میں انفاق فی سبیل اللہ کرتے رہنا چاہیے۔ 2۔ قتال فی سبیل اللہ کے لیے خرچ کرنا فرض ہے۔ 3۔ زمین و آسمان کی میراث کا حقیقی اور دائمی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ 4۔ مشکل حالات میں صدقہ کرنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال سے باخبر رہتا ہے۔ 6۔ مشکل حالات میں انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کرنے والے صحابہ بعد کے صحابہ سے افضل ہیں۔ 7۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں سے اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: انفاق فی سبیل اللہ کا حکم اور اس کا اجر : 1۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ:265) 2۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ:272) 3۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء :114) 4۔ اللہ کی رضا کے چاہنے والوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد :22) 5۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر :9) 6۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا :39) 7۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران :134) 8۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ:261)