هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں چڑھتی ہے اور وہ تمھارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو اور اللہ اسے جو تم کرتے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 4 سے 6) ربط کلام : جو ذات اوّل اور آخر، ظاہر اور باطن اور ہر چیز کا علم رکھتی ہے اسی نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ ” اللہ“ ہی وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر عرش پر متمکن ہوا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ عرش پر متمکن ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ وہ کائنات کے نظام سے لاتعلق ہوچکا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے، وہ جانتا ہے جو آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اوپر چڑھتا ہے، وہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات، بارش کے قطرات، زمین سے اگنے والی نباتات، آسمان سے اترنے والے ملائکہ اور آسمان کی طرف چڑھنے والے ملائکہ، ارواح اور اعمال کو جانتا ہے۔ اے لوگو! تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور وہ تمہارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، زمین و آسمانوں کی بادشاہی اسی کے لیے ہے اور ہر کام کا فیصلہ اور اس کا انجام اسی کے حضور پیش کیا جاتا ہے، وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ لوگو! میں ہر آن تمہارے ساتھ ہوتاہوں اور اس آیت میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور پھر عرش پر مستوی ہوا۔ اسی بات کو سورۃ طٰہٰ کی آیت 5میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ دونوں آیات کو سامنے رکھ کر اس بات کی حقیقی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش معلی پر ہے اور وہ اپنے اقتدار، اختیار، علم و آگہی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور کائنات کے تمام امور کی ابتدا اور انتہا اسی کے حکم پر ہوتی ہے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان اور آن کے مطابق عرش پر مستوی ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو زمین و آسمانوں میں داخل ہوتا اور جو زمین سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم وآگہی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔ 5۔ کائنات کی تمام حر کات و سکنات اس کے حکم کے تابع ہیں۔ 6۔ ” اللہ“ ہی رات کودن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ اقتدار، اختیار اور علم وآگہی کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:153) 2۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبہ :36) 3۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء :146) 4۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل :128) 5۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (النحل :128) 6۔ اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن :29) 7۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید :4) 8۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ:148) 9۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ( المجادلہ :7)