فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ
پھر کیوں نہیں کہ جب وہ (جان) حلق کو پہنچ جاتی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 83 سے 88) ربط کلام : قرآن مجید کو جھٹلانے والوں کو ان کی موت یاد کروائی گئی ہے تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے آپ کو سیدھی راہ پر ڈال کر اصحاب الیمین میں شامل ہوجائیں۔ اس سورت کا آغاز قیامت کی ہولناکیوں کے بیان سے ہوا۔ جس میں بتلایا گیا کہ قیامت کے دن لوگ ” اَصْحَابَ الْیَمِیْنِ، اَصَحَاب الشِّمَالِ“ اور ” سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ“ کی تقسیم کے مطابق ہوں گے لیکن بنیادی طور پر لوگ دو ہی گروہوں میں منقسم ہوں گے۔ ایک جنتی اور دوسرے جہنمی ہوں گے الواقعہ کا اختتام بھی اسی مضمون پر کیا جارہا ہے کیونکہ قیامت کے انعام اور اس کی سزاؤں کا آغاز انسان کی موت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے پہلے موت کی واردات کا ذکر فرمایا کہ جب موت آتی ہے تو جان حلق میں اٹک جاتی ہے اور تم اس وقت فوت ہونے والے کی بے بسی دیکھ رہے ہوتے ہوں، بظاہر تم اس کے قریب ہوتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم سے ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں نظر نہیں آتے، اگر تم میں طاقت ہے تو اس کی نکلنے والی روح کو واپس کیوں نہیں لاتے ؟ اس بات کو دوسرے مقام پر یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ﴿قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ﴾ (آل عمران :168) ” اے نبی (ﷺ) ! ان سے فرمائیں کہ اگر تم سچے ہو اور کسی قسم کا اختیار رکھتے ہو تو پھر اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ۔“ پھر ارشاد فرمایا : ﴿يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُـمْ فِىْ بُـرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ ( النساء :78) ” تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ تو بھی موت تمہیں دبوچ لے گی۔“ موت کا ہاتھ لخت جگر کو مامتا کی چھاتی سے، جوان بیٹے کو بوڑھے باپ سے اور ماں کو بلکتے ہوئے بچوں سے چھین لیتا ہے۔ موت کے مقابلے میں کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ یہاں اشارۃً بتلایا جارہا ہے کہ جب تم اپنے آپ اور کسی عزیز کو اس کی موت سے نہیں چھڑا سکتے تو اس قیامت سے کس طرح بچ سکتے ہو جو ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دے گی، یہاں تک کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کو ہلا کر الٹ پلٹ کردے گی۔ پہاڑ ریزہ ریز ہوجائیں گے، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں گے اور زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ اگر تم ذات کبریا کے مطیع نہیں ہو تو پھر مرنے والے کی روح کو کیوں نہیں لٹاتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ ذوالجلال کے سامنے محض عضو معطل ہو مگر اپنی حقیقت بھول چکے ہو۔ جس نے اپنے آپ اور اپنے رب کو پہچان لیا وہ اس کے مقرب بندوں میں شامل ہوگا۔ جس نے اپنے رب اور موت کو بھلا دیا وہ کلی طور پر گمراہ ہوا۔ موت کی آسانی کے لیے دعا : (اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ) (رواہ احمد : مسند عائشہ (رض) ) ” اے اللہ مجھے موت کی سختیویوں پر فتح عطا فرما۔“ مسائل: 1۔ انسان کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ 2۔ موت کے وقت انسان کے عزیز واقرباء اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن: موت کا وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا : 1۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران :145) 2۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران :154) 3۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران :168) 4۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء :78) 5۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء :35) 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : 26، القصص :88) 7۔ جب کسی کی اجل آجائے تو اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ( یونس :49) 8۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے، اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا :30) 9۔ قیامت آچکی ہے لیکن تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ ( الانبیاء :1)