نَحْنُ قَدَّرْنَا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ
ہم نے ہی تمھارے درمیان موت کا وقت مقرر کیا ہے اور ہم ہرگز عاجز نہیں ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 60 سے 62) ربط کلام : ” اللہ“ ہی انسان کو پیدا کرنے والاہے اور وہی اسے موت دیتا ہے۔ سورۃ الملک کی دوسری آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ اسی ذات نے زندگی اور موت پیدا کی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔ آل عمران کی آیت 185 میں ارشاد ہوا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوا۔ سورۃ یونس کی آیت 49 میں ارشاد فرمایا کہ ہر نفس کا ایک وقت مقرر ہے جب وقت آتا ہے۔ تو ایک لمحہ بھی اس میں آگا پیچھا نہیں کیا جا تا اس بات کو یہاں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کی ہے لہٰذا موت ہر انسان کا مقدر ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کب اور کس مقام پر آئے گی۔ موت کا فیصلہ صادر کرنے میں ” اللہ“ کو کوئی بے بس نہیں کرسکتا۔ ہم پوری قدرت رکھتے ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور تمہیں ایسی شکل میں پیدا کردیں جسے تم نہیں جانتے اگر تم واقعی اپنی پہلی پیدائش کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھتے ہو تو پھر نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے یعنی قیامت پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تین ارشاد فرمائے ہیں۔ 1۔ ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی ہے جس سے کوئی شخص بھی چھٹکارا نہیں پاسکتا جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا، بادشاہ ہویا فقیر، نیک ہویا بد یہاں تک کہ نبی بھی موت کو ایک لمحہ کے لیے آگے پیچھے نہیں کرسکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ موت کے وقت میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ 2۔ اگر ” اللہ“ یہ فیصلہ کرلے کہ لوگوں کی شکل و صورت اور قدوقامت تبدیل کردیئے جائیں اور انہیں کسی دوسری شکل میں پیدا کیا جائے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کے فیصلے کو تبدیل کرسکے۔ صرف اللہ کی ذات ہے جو انسان کو شکل و صورت اور قدوقامت عطا فرماتی ہے اگر وہ کسی کو کالے رنگ کا پیدا کر دے تو کوئی ایسی ذات نہیں جو اس کی رنگت کو سفید کرسکے، اگر وہ کسی کو ٹھگناپیدا کردے تو کوئی حکیم اور ڈاکٹر اس کے قد کو پورا نہیں کرسکتا، اگر کسی کو کسی عضو سے محروم کردے تو کوئی ایسا ہسپتال نہیں جو حقیقی عضور تیار کرسکے۔ 3۔ اگر انسان اپنے رب کو پہچاننا اور قیامت پر یقین کرنا چاہے تو اسے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی پیدائش پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا ہے، وہ انسان کو بچپن سے جوان کرتا ہے اور وہی انسان کی جوانی کو بڑھاپے میں ڈھالتا ہے۔ کیا کوئی ایسی ذات ہے جو انسان کو بڑھاپے اور موت سے بچا سکے۔ جب زندگی کا کوئی لمحہ بھی انسان کے اپنے یا کسی کے بس میں نہیں تو پھر انسان کو اس بات پر کلی طور پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی بلاشرکت غیرے ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اپنے رب پر اس کے حکم کے مطابق ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان موت کا سلسلہ مقرر کر رکھا ہے۔ 2۔ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کی ایسی شکلیں بنادے جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتے۔ 4۔ انسان اپنی پیدائش پر توجہ کرے تو ہر صورت اپنے رب کو پہچان لے گا اور قیامت پر ایمان لے آئے گا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں دیکھنے کے باوجود انسان نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے : 1۔ بے شک میرا ” اللہ“ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف :100) 2۔ ” اللہ“ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران :13) 3۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے جو ” اللہ“ چاہتا ہے۔ (الدھر :30) 4۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر :29) 5۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (آل عمران :37) 6۔ ” اللہ“ جسے چاہے معاف فرمائے جسے چاہے عذاب دے۔ ( آل عمران :129) 7۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ:1) 8۔ اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبہ :27) 9۔ اللہ جس کی چاہتا ہے اپنے نور (قرآن) کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (النور :35)