تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
فہم القرآن : (آیت 13 سے 14) ربط کلام : ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے احکام کو اپنی حدود قرار دینے کے بعداسکے ماننے والوں کو جزا اور نہ ماننے والوں کو سزا سنائی ہے۔ ان آیات میں ماں باپ، اولاد اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے درمیان میّت کی چھوڑی ہوئی متروکہ جائیداد کی وراثت کے بارے میں اصول متعین کر کے انہیں میت کا وارث بنایا گیا۔ لیکن حدیث میں کچھ جرائم کے مرتکب افراد کو بعض حالتوں میں وراثت سے محروم کردیا گیا ہے۔ جن میں سر فہرست مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا یعنی ایک آدمی پہلے کافر تھا اب مسلمان ہوا لہٰذانئے دین میں شامل ہونے کی وجہ سے دوسرے دین کے حامل کا وارث نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص پہلے مسلمان تھا بد قسمتی سے عیسائی‘ یہودی یا کسی اور مذہب میں داخل ہوگیا تو وہ بھی وراثت کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض] 1۔ باپ کا قاتل بیٹا ہو یا بیٹی وہ وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔ 2۔ قاتل اگر مقتول کی وراثت میں حصہ دار ہے تو قتل عمد کی صورت میں وہ بھی اپنے حصہ سے محروم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں رسول اللہ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ) [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات] ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں واقع ہوا وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھنا! وہ دل ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھنے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ در حقیقت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ دنیا میں اس نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی لذّت اور مفاد کو چھوڑا۔ آخرت میں اس کا بدلہ جنت ہے جس میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی جس نے حدود اللہ کا لحاظ اور احترام نہ رکھا وہ حقیقت میں باغی انسان ہے جس کو جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جھونکا جائے گا۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس کو اذیتّ ناک اور ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تاہم رسول اللہ (ﷺ) نے حدود اللہ اور کبیرہ گناہ کے بارے میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ موحّد ہونے کی صورت میں تزکیہ یعنی سزا بھگتنے کے بعد اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یَدْخُلُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَأَھْلُ النَّار النَّارَ ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی أَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ إِیْمَانٍ فَیُخْرِجُوْنَ مِنْھَا قَدِ اسْوَدُّوْا فَیُلْقَوْنَ فِیْ نَھْرِ الْحَیَاۃِ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبَّۃُ فِیْ جَانِبِ السَّیْلِ أَلَمْ تَرَ أَنَّھَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِیَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب تفاضل أھل الإیمان فی الأعمال] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ جنت والے جنت اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آگ سے ہر اس آدمی کو نکال لیا جائے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے۔ فرشتے آگ سے لوگوں کو نکالیں گے جو جل کر سیاہ ہوچکے ہوں گے انہیں نہر حیات میں غسل دیا جائے گا وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح سیلاب کے کنارے دانہ بہترین حالت میں اگتا ہے۔“ مسائل : 1۔ وراثت کے مسائل اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں۔ 2۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو جنت نصیب ہوگی۔ 3۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور حدود سے تجاوز کرنے والے کو ذلیل ترین عذاب ہوگا۔