يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر حصہ ہے، پھر اگر وہ دو سے زیادہ عورتیں (ہی) ہوں، تو ان کے لیے اس کا دوتہائی ہے جو اس نے چھوڑا اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے۔ اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو۔ پھر اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث ماں باپ ہی ہوں تو اس کی ماں کے لیے تیسرا حصہ ہے، پھر اگر اس کے (ایک سے زیادہ) بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیے چھٹا حصہ ہے، اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد)۔ تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے تم نہیں جانتے ان میں سے کون فائدہ پہنچانے میں تم سے زیادہ قریب ہے، یہ اللہ کی طرف سے مقرر شدہ حصے ہیں، بے شک اللہ ہمیشہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 11 سے 12) ربط کلام : گزشتہ مضمون سے پیوستہ۔ اس آیت کا شان نزول حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی محترم (ﷺ) کے ساتھ ہمارا گزر ایک بازار میں ہوا۔ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رسول کریم (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! یہ ثابت بن قیس (رض) کی بچیاں ہیں جو غزوۂ احد میں شہید ہوچکے ہیں۔ ان کا چچا ان کی میراث پر قبضہ کرچکا ہے اب ان کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ اس معاملہ میں آپ کیا حکم صادر فرماتے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر وراثت واپس نہ ہوئی تو ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی شخص نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نازل فرمائیں گے۔ اس کے بعد یہ فرمانِ الٰہی نازل ہوا۔[ رواہ ابوداؤد کتاب الفرائض] اس میں نہایت مختصر مگر کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ مرنے والے کے بعد اس کی جائیداد کا وارث کون کون اور کس حساب سے ہوگا؟ اس میں بیک وقت موروثی معاملات کو نمٹانے کے ساتھ محروم طبقات کا تحفظ، جاگیر داری نظام کا خاتمہ اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کی بجائے اس کی اس طرح تقسیم کردی گئی ہے کہ ” حقدار راحق رسید“ کا قانون منہ بولتا دکھائی دیتا ہے۔ جائیداد کی تقسیم کا فارمولہ مرد کے بجائے عورت کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ کیونکہ حکم ہے ﴿ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ﴾ جس میں عورت کے مالی حقوق کو فوقیت دی گئی ہے۔ یہی حکمت اس سورۃ مبارکہ کے نام ” النساء“ سے معلوم ہوتی ہے تاکہ عورتوں کے اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی حقوق نمایاں کیے جائیں۔ وراثت کی تقسیم سے قبل تین بنیادی باتوں کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے ان سے پہلے وراثت تقسیم کرنا جائز نہیں۔ فوت ہونے والے کے کفن دفن کا انتظام کرنا، اس کے ذمہ قرض ہو تو وراثت سے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا۔ مرنے والے نے اگر شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے مال کے بارے میں صدقہ کرنے کی وصیت کی ہو تو اس پر عمل درآمدکرانا ورثاء پر ضروری ہے کیونکہ اس فرمان سے پہلے عورتوں کے حقوق اور ان کے بارے میں عدل وانصاف کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا پروپیگنڈہ بے وجہ ثابت ہوتا ہے جس میں یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حاکم بدہن اسلام نے عورت کے مالی حقوق کا چنداں خیال نہیں کیا۔ حالانکہ تعمق نگاہی سے دیکھا جائے تو اسلام ہی فقط ایک دین ہے جس میں عورتوں کو اخلاقی، سماجی اور خاندانی اعتبار سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کے مالی حقوق کا پورا اور مکمل خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام کے قانون وراثت کے تحت بسا اوقات ایک عورت مختلف انداز میں تین رشتوں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے اس کے باوجود عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جہیز کے بہانے اس کو اصل وراثت سے محروم کرنا بالخصوص یتیم بچیوں کو اپنی سرپرستی میں اس لیے لینا کہ شادی کے بعد ان کی جائیداد پر قبضہ کرنا آسان ہو۔ بعض لوگ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ جس سے وراثت میں حصہ دار بہنیں باہمی تلخی کے خوف اور بھائیوں سے تعلقات استوار رکھنے کی خواہش میں اپنا حصہ معاف کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ایسی معافی سے قانون کے نفاذ سے تو بچا جاسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخروئی حاصل کرنا مشکل ہوگی۔ قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعدورثاء میں تقسیم : (1) اولاد (2) والدین (3) خاوند (4) زوجہ (5) بہن بھائی۔ اولاد : 1۔ لڑکیاں لڑکے ملے جلے ہوں تو لڑکے کو لڑکی کے حصے سے دوگنا ملے گا ﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ۔۔﴾ 2۔ صرف لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کو کل مال کا دو تہائی ملے گا۔ ﴿فَإِنْ کُنَّ نِسَاءً فَوْقَ۔۔﴾ 3۔ اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہی ہو تو کل مال کا نصف اسے ملے گا۔ ﴿وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً۔۔﴾ والدین : 1۔ میت کے والدین بھی ہوں اور اولاد بھی تو ماں باپ دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا۔ ﴿وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ۔۔﴾ 2۔ میت کے والدین ہوں اور اولاد نہ ہو تو ماں کو کل مال کا تیسرا حصے ملے گا۔ ﴿فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ ﴾ 3۔ وارثوں میں میت کے والدین کے ساتھ اولاد تونہ ہو لیکن دوسے زیادہ بہن بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (باقی باپ کو)۔ ﴿فَإِنْ کَانَ لَہٗ إِخْوَۃٌ۔۔﴾ (یا اس کو درج ذیل طریقہ کے مطابق سمجھیں ) صرف ماں کے حصے : 1۔ میت کی اولاد ہو (صرف مذکر کی شرط ہے) تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ﴿وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ۔۔﴾ 2۔ میت کی اولاد نہ ہو تو ماں کو تیسراحصہ ملے گا۔ ﴿فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ۔۔﴾ صرف باپ کے حصے : 1۔ میت کی اولاد ہو تو باپ کو کل مال کا چھٹا حصہ ملے گا۔ ﴿وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ۔۔﴾ 2۔ میت کی اولاد نہ ہو تو باپ عصبہ کی صورت میں باقی ماندہ مال لے گا۔ ﴿فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ۔۔﴾ 3۔ جب میت کی بیٹی، پوتی وغیرہ نیچے تک کوئی موجود ہو تو باپ صاحب فرض اور عصبہ ہونے کے لحاظ سے وارث بنے گاْ۔ خاوند : 1۔ بیوی کی اگر کوئی اولاد اس خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے نہ ہو تو خاوند کو کل ترکے کا نصف ملے گا۔ ﴿وَلَکُمْ نِصْفُ مَاتَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ۔۔﴾ 2۔ اگر بیوی کی اس سے یا پہلے خاوند سے کوئی اولاد ہو تو خاوند کو اس کے کل ترکے سے چوتھا حصہ ملے گا۔ ﴿فَإِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ۔۔﴾ بیوی : 1۔ خاوند کی اگر کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو کل مال کا چوتھا حصے ملے گا۔ ﴿وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا۔۔﴾ 2۔ خاوند کی اگر کوئی اولاد ہو تو بیوی کو کل مال کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ﴿فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ۔۔﴾ بہن، بھائی : 1۔ میت کی اولاد در اولاد اور باپ دادا وغیرہ نہ ہوں اور ماں کی طرف سے ایک بہن یا ایک بھائی وارث بن رہا ہو تو اسے کل مال کا چھٹا حصہ ملے گا مذکر و مونث کی تمیز نہ ہوگی۔ ﴿وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلَالَۃً۔۔﴾ 2۔ میت کی اولاد در اولاد اور باپ دادا وغیرہ نہ ہوں اور ماں کی طرف سے بہن بھائی یا ایک سے زیادہ ہوں تو ان تمام کو کل مال کا تیسرا حصہ دیا جائے گا، مذکر و مونث اس میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ ﴿فَإِنْ کَانُوْا أَکْثَرَ مِنْ۔۔﴾ نوٹ : 1۔ اولاد ہونے کی صورت میں پوتے پوتی کو کچھ نہ ملے گا۔ 2۔ باپ کی موجودگی میں دادا کو کچھ نہ ملے گا اگر باپ نہیں تو دادا باپ والا حصہ لے گا۔ 3۔ صرف اولاد یا صرف باپ یا اولاد اور باپ کی موجودگی میں میت کے بہن بھائی کو کچھ نہیں ملے گا۔ 4۔ صرف باپ یا ماں باپ کی طرف سے بہن بھائیوں کی وراثت کا بیان سورۃ کی آخری آیت میں آئے گا۔ مسائل : 1۔ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ 2۔ صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی دیا جائے گا۔ 3۔ صرف ایک لڑکی وارث ہونے کی صورت میں اسے آدھا مال ملے گا۔ 4۔ میت کے متروکہ مال میں ماں باپ میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا۔ 5۔ میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی ماں تیسرے حصے کی وارث ہوگی۔ 6۔ مرنے والے کے بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا۔ 7۔ فوت ہونے والی بیوی کی اولاد نہ ہو تو خاوند کو نصف حصہ ملے گا۔ 8۔ مرنے والی کی اولاد ہو تو خاوند کا چوتھا حصہ ہوگا۔ 9۔ آدمی کی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو چوتھا حصہ ملے گا۔ 10۔ فوت ہونے والے کی اولاد ہو تو اس کی بیوی کا آٹھواں حصہ ہوگا۔ 11۔ فوت ہونے والے مرد یا عورت کی اولاد، ماں باپ اور دادی دادا نہ ہوں تو بھائی اور بہن (ماں جائے) ہونے کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 12۔ کلالہ کے بہن بھائی (ماں جائے) زیادہ ہوں تو وہ تیسرے حصے کے حق دار ہوں گے۔ 13۔ یہ تقسیم کفن دفن اور قرض کی ادائیگی اور میت وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی۔