سورة الواقعة - آیت 7

وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَاثَةً

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور تم تین قسم (کے لوگ) ہوجاؤ گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 7 سے 14) ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے بعد محشر کے میدان میں لوگوں کی حالت۔ اس سورت کی پہلی آیت سے لے کر چھٹی آیت تک اسرافیل کے پہلی مرتبہ صورپھونکنے کا منظر بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد جوں ہی دوسرا صورپھونکا جائے گا تو لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں یوں اکٹھے ہوں جیسے تیر اپنے نشانے پر پہنچ جاتا ہے۔ (المعارج :43) لوگوں کو حساب و کتاب کے فوراً بعد تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ جس کی ابتدا حساب و کتاب کے وقت ہی کردی جائے گی۔ آغاز میں مجموعی طور پر لوگ دواقسام پر مشتمل ہوں گے نیک اور بد۔ نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں تھمائے جائیں گے۔ دونوں کے اپنے اپنے اعمال ناموں کے بارے میں ابتدائی تاثرات یوں ہوں گے۔ ﴿فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہِ فَیَقُوْلُ ہَاؤُمْ اقْرَءُ وا کِتَابِی اِنِّی ظَنَنتُ اَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِی۔ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ﴾ (الحاقۃ: 19تا21) ” سو جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ وہ خوش وخرم ہوگا۔“ ﴿وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِی لَمْ اُوْتَ کِتَابِی۔ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِی یَالَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ مَا اَغْنٰی عَنِّی مَالِی ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِی﴾ (الحاقۃ: 25تا29) ” اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا۔” کاش! میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتا، اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش ! جو موت دنیا میں مجھے آئی تھی وہ آخری ہوتی آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اثر ورسوخ ختم ہوگیا۔“ حساب و کتاب کے بعد لوگوں کو مجموعی طورپرتین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔1۔ دائیں جانب والے۔ دائیں جانب والوں کا کیا کہنا ہے ؟ 2۔ سبقت لے جانے والے تو سب سے آگے ہوں گے اور اپنے رب کے مقرب ترین ہوں گے۔ 3۔ بائیں ہاتھ والے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں دائیں اور بائیں کی اصطلاح پائی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ کو بائیں پر نیکی اور فیزیکلی (PHSYCALLY) طور پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ دائیں بائیں کی اصطلاح درجہ بندی کے اعتبار سے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ عربوں میں بھی یہ اصطلاح معروف تھی جس وجہ سے جنتی کو دائیں ہاتھ والے اور جہنمی کو بائیں ہاتھ والے کہا گیا ہے۔ عرب آنے والے مہمانوں میں معزز ترین آدمی کو مجلس میں دائیں ہاتھ بٹھایا کرتے تھے۔ دین اسلام میں بھی دائیں اور بائیں میں فرق رکھا گیا ہے۔ کھانے پینے کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے اور استنجا کرنے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں دائیں ہاتھ والوں سے مراد جنتی لوگ ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے وہ جنت میں جانے اور اس کا اعلیٰ مقام پانے کے لیے بھی دوسرے جنتیوں سے آگے ہوں گے اور وہی جنت الفردوس میں داخل کیے جائیں گے جو رب رحمن کے عرش کے قریب تر جنت ہوگی، انہیں جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا۔ سبقت لینے جانے والوں میں پہلے لوگ زیادہ ہوں گے اور پیچھے آنے والوں میں کم ہوں گے۔ مفسرین نے پہلے لوگوں کے بارے میں تین قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جن میں بہترین خیال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں نیکی کے معاملات میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے وہ جنت میں سابقین اور مقربین میں ہوں۔ ان میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جنہیں اپنے دور کے نبی کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں سے نیک کاموں میں آگے بڑھنے والے تھے۔ اسی بنا پر نبی محترم (ﷺ) نے صحابہ اور امت میں درجہ بندی فرمائی ہے۔ یہاں مقربین کے بعد جنت نعیم کا ذکر کیا ہے تاکہ لوگ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ صحابہ کرام (رض) میں پہلا درجہ خلفائے راشدین کا ہے پھر عشرہ مبشرہ اور پھر بدری صحابہ کا اور اس کے بعد فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ ہیں۔ امت کے بارے میں آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے : (عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) قَال قال النَّبِیُّ () عَشْرَۃٌ فِی الْجَنَّۃ أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِوَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ وَابْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعْدٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّۃِوَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّۃِ) (صحیح ابن حبان، باب ذِکْرُ إِثْبَاتِ الْجَنَّۃِ لِأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ) ” حضرت عبدالرحمان بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : دس لوگ جنت میں جائیں گے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) ان کے لیے دنیا میں جنت کی بشارت ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ) (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (ﷺ) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جن کی گواہی ان کی قسم سے اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) (رواہ البخاری : باب من لم یرق) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی محترم (ﷺ) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا، اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے، جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا، جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا، شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا، آپ پھر دیکھیں میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں، جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔“ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ بالآخر مردگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ ﴿سَابِقُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الحدید :21) ” اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔“ ﴿وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ﴾(آل عمران :133) ” اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن لوگوں کی تین اقسام ہوں گی۔ 2۔ دائیں ہاتھ والے ان کا کیا کہنا ؟ 3۔ بائیں ہاتھ والے سخت مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ 4۔ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے مقربین میں شامل ہوں گے۔ 5۔ ہر امت کے پہلے طبقہ کے لوگ تعداد کے لحاظ سے مقربین میں زیادہ ہوں گے۔ تفسیربالقرآن : نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم : 1۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید :21) 2۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ:148) 3۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے ارفع ہوں گے۔ (فا طر :32) 4۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : 10، 11) 5۔ اللہ کی جنت اور بخشش کے لیے سبقت کرو۔ ( آل عمران :133)