لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔
فہم القرآن : (آیت 7 سے 10) ربط کلام : پہلے عورتوں اور یتیموں کے مالی اور سماجی حقوق کے تحفظ کا حکم دیا۔ اب قانون وراثت کے ذریعے سب کے مالی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ قبل از اسلام اور آج بھی دنیا میں تقسیم وراثت کے بارے میں چار قانون نافذ العمل ہیں۔ 1۔ عورتوں کو مالی حقوق سے یکسر محروم رکھنا۔ 2۔ خاوند فوت ہونے کے بعد بیوہ اور بیٹیوں کو متروکہ جائیداد سے خارج کردینا۔ 3۔ باپ کے فوت ہونے کے بعد صرف بڑے بیٹے کو وراثت کا حقدار ٹھہرانا۔ 4۔ باپ کی وراثت میں صرف بیٹوں کا ہی حق دار قرار پانا۔ اسلام نے اس استحاصل کو یکسر ختم کر کے حکم دیا کہ مرد ہو یا عورت‘ چھوٹا ہو یا بڑا جو اس کے والدین اور اقرباء چھوڑ جائیں اس میں شریعت کے مقرر کردہ قریبی رشتہ داروں کا حصہ ہے۔ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حصہ ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اخلاقی قدروں کا خیال رکھتے ہوئے یہ بھی حکم دیا کہ تقسیم کے وقت غریب رشتہ دار‘ یتیم اور مسکین اگر موجود ہوں وہ جائیداد میں حصہ دار تو نہیں لیکن انہیں کھانے پینے کے لیے کچھ ضرور دینا چاہیے۔ ان کی حاضری کو گراں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مروّت اور اچھے انداز میں گفتگو کی جائے۔ اس کے بعد فوت ہونے والوں کو تلقین فرمائی کہ وہ مرنے کے قریب اس طرح شاہ خرچ نہ بنیں جس سے ان کے چھوٹے چھوٹے بچے مالی طور پر کنگال ہوجانے کی وجہ سے دوسروں کے دست نگر ہوجائیں۔ کچھ مفسّرین نے یہ حکم میّت کے لواحقین پر لاگو کیا ہے کہ انہیں یتیموں کے ساتھ تلخ رویّہ اور ان کے مال میں زیادتی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو اس حالت میں چھوڑ جائیں تو ان کے کیا احساسات ہوں گے؟ لہٰذا یتیموں کے ساتھ گفتگو نہایت نرم اور محبت آمیز لہجہ میں کرنا چاہیے۔ وراثت کا مسئلہ شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر یتیموں کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ان کا مال ظلم کے ساتھ نہ کھاؤ۔ یہ کھلم کھلا پیٹ میں آگ کے انگارے ڈالنے کے مترادف ہے۔ یتیم کا مال کھانے والے عنقریب جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے۔ وہاں ان کے آگے پیچھے اور اوپر نیچے آگ ہی آگ ہوگی۔ حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول کریم (ﷺ) سے عرض کی کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے انہیں اجازت عنایت نہ فرمائی۔ پھر انہوں نے نصف کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی تو آپ نے یہ فرماکر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے کہیں بہتر ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، میراث البنات] مسائل : 1۔ مردوں کے لیے ان کے والدین اور اقرباء کے ترکہ میں حصہ ہے۔ 2۔ عورتیں بھی اپنے والدین اور اقرباء کی وراثت میں حصے دار ہیں۔ 3۔ وراثت تقسیم کرتے وقت یتیموں اور مسکینوں کو کچھ نہ کچھ کھلانا پلانا چاہیے۔ 4۔ وراثت کے بارے میں واضح ہدایت دینا چاہیے۔ 5۔ یتیموں کا مال زیادتی کے ساتھ کھانے والے آگ کے انگارے نگلتے ہیں۔ 6۔ یتیموں کا مال کھانے والے جہنم میں داخل ہوں گے۔