وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور گندی چیز کو اچھی چیز کے عوض بدل کر نہ لو اور نہ ان کے اموال اپنے مالوں سے ملا کر کھاؤ، یقیناً یہ ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : سورت کی پہلی آیت میں بنی نوع انسان کو ایک کنبہ قرار دے کر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا اب معاشرے کے پسماندہ لوگوں کے حقوق کا چھ آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پسماندہ لوگوں میں سرِفہرست یتیم ہیں جو بلوغت سے پہلے باپ کے سہارے سے محروم ہوچکے ہوں۔ یتیم کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اپنے مال کے ساتھ ملانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والا حرام کو حلال کے ساتھ ملاتا ہے جس سے نفرت دلانے کے لیے خبیث کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ خبیث ناپاک اور گندی چیز کو کہتے ہیں۔ لفظ خبیث استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ پاک ذہن اور با ضمیر شخص یتیم کا مال کھانے کا تصور بھی نہ کرسکے۔ اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اس پر اتنی سختی اور جلدی کے ساتھ عمل کیا کہ آپ کی محفل سے اٹھے اور گھر جانے کے بعد جن کے ہاں یتیم پرورش پا رہے تھے۔ ان کا کھانا پینا اور برتن الگ کردیے۔ جسے یتیموں نے شدّت کے ساتھ محسوس کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ماجرا عرض کیا۔ تب قرآن مجید میں اس کی وضاحت نازل ہوئی : ﴿وَیَسْأَلُو نَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْشَآء اللّٰہُ لَأَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ [ البقرۃ:220] ” اور وہ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیں کہ ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے اور اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ مصلح اور مفسد کو جانتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ یَاأَبَاذَرٍّ إِنِّیْ أَرَاکَ ضَعِیْفًا وَإِنِّیْ أُحِبُّ لَکَ مَاأُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَاتَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَاتَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْمٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب کراھۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اے ابوذر! میں تجھے کمزور پاتاہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوں جو اپنے لیے پسند کرتاہوں، تم دو آدمیوں کے امیر نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کا والی بننا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ إِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ إِلَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الأدب، باب حق الیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا مسلمانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو۔ مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آیا جاتا ہو۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِِّ (ﷺ) فَقَالَ لَاأَجِدُ شَیْئًا وَلَیْسَ لِیْ مَالٌ وَلِیَ یَتِیْمٌ لَہٗ مَالٌ قَالَ کُلْ مِنْ مَالِ یَتِیْمِکَ غَیْرَ مُسْرِفٍ وَلَامُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ وَأَحْسِبُہٗ قَالَ وَلَا تَقِیَ مَالَکَ بِمَالِہٖ) [ ابن ماجۃ: کتاب الوصایا، باب قولہ ومن کان فقیرًا فلیأکل بالمعروف] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا میرے پاس کوئی مال نہیں البتہ میرے پاس ایک یتیم ہے جس کا مال بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے یتیم کے مال سے فضول خرچی اور اپنے مال کے ساتھ نہ ملاتے ہوئے اس کے مال میں سے کھالیاکر۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا اپنا مال اس کے مال کے ذریعے نہ بچانا۔“ مسائل : 1۔ یتیموں کا مال واپس کرنا چاہیے۔ 2۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن : یتیموں کے حقوق : 1۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ:220) 2۔ یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (البقرۃ:83) 3۔ یتیموں کا مال واپس کیا جائے۔ (النساء :2) 4۔ یتیموں کا مال بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر واپس کرو۔ (النساء :6) 5۔ یتیموں کو مال دو تو اس پر گواہ کرلو۔ (النساء :6) 6۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت۔ (الضحیٰ:9) 7۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ (النساء :2)