رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ
(وہ) دونوں مشرقوں کا رب ہے اور دونوں مغربوں کا رب۔
فہم القرآن: (آیت 17 سے 21) ربط کلام : جس رب نے انسان اور جن کو پیدا کیا ہے وہی مشرقین اور مغربین کا مالک ہے۔ سورہ الصّافات کی آیت 5میں مشرق کے لیے مشارق کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ بے شک سورج مشرق سے نکل کر مغرب کی جانب غروب ہوتا ہے لیکن سورج ہمیشہ ایک ہی مقام سے نہ طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب ہوتا ہے بلکہ ہر روز اپنی جگہ بدلتا ہے جسے موجودہ سائنسدان اور فلکیات کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں اس لیے یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ عربی میں یہ الفاظ فاصلے کی طوالت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرما کر شمال اور جنوب کی جوانب کو بھی مشرقین اور مغربین میں شامل کیا گیا ہے۔ مشرقین اور مغربین کا ذکر فرماکریہ ثابت کیا ہے کہ ان کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا کرنے والا صرف ایک رب ہے۔ جس سورج کی وجہ سے یہ سمتیں مشرق اور مغرب کہلاتی ہیں اس سورج کو بھی اسی رب نے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک رب کے سوا کوئی اور پیدا کرنے والا نہیں اس لیے اس کا فرمان ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ جس طرح اس نے دو مغرب اور دو مشرق بنائے ہیں اسی طرح اس نے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک پانی میٹھا ہے اور دوسرا کڑوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا پانی آپس میں نہیں ملتا کیونکہ ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا گیا ہے۔ کڑوے پانی کے اپنے فوائد ہیں اور میٹھا پانی اپنے فوائد اور تاثیر رکھتا ہے۔ اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے سائنسدان اس کی یہ توجیح کرتے ہیں کہ کڑوا پانی ہلکا ہوتا ہے اور میٹھا پانی بھاری ہوتا ہے۔ دونوں کے اجزاء الگ الگ ہیں جس وجہ سے وہ آپس میں تحلیل نہیں ہوتے۔ حالانکہ سمندر میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں میٹھا اور کڑوا پانی آپس میں خلط ملط ہوجاتا ہے۔ سمندر ایک ہونے کے باوجود ان کے پانی کا الگ الگ رہنا اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں سے ایک عظیم قدرت ہے۔ بےدین سائنسدان غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون میٹھا اور کڑوا پانی پیدا کرنے والا ہے؟ یہ اس کی قدرت نہیں تو کیا ہے؟ لیکن اس کے باوجود جنوں اور انسانوں میں بے شمار افراد ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس قد رت کو جاننے کے باوجود اس کی ذات اور فرمان کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروے گے۔ حدیث میں مشرق اور مغرب کا ذکر : ” حضرت ابوہریرہ (رض) تذکرہ کرتے ہیں کہ رسول کریم (ﷺ) پہلی تکبیر اور قراءت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ کی ذات پر فدا ہوں آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان خاموشی کے ساتھ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ میں یہ پڑھا کرتا ہوں۔ ” الٰہی میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری فرما دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری قائم کی ہے۔ الٰہی ! میرے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ الٰہی میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھوڈالیے۔ (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ بَعْدَ التَّکْبِیرِ) مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے دو مشرق اور دو مغرب بنائے ہیں۔ 2۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے درمیان ایک رب کے سوا کسی کی دائمی اور عالمگیر بادشاہی نہیں ہے۔ 3۔ بے شمارجن اور انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے ہی دو سمندر بنائے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے کڑوے اور میٹھے سمندروں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے۔ 6۔ کڑوے اور میٹھے پانی کے اپنے اپنے فوائد ہیں جن سے لوگ مستفید ہوتے ہیں اس کے باوجود بے شمار جن اور انسان اپنے رب کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ ہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے : 1۔ اللہ ہی دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا رب ہے۔ (الرحمن :17) 2۔ مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ:142) 3۔ اللہ تعالیٰ مشرق اور مغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل :9) 4۔ بے شک تمہارا ایک الٰہ ہے جو آسمان و زمین، جو کچھ ان کے درمیان ہے اور مشارق کا رب ہے۔ (الصّافات : 4، 5) 5۔ میں قسم اٹھاتا ہوں مشارق اور مغارب کے رب کی کہ وہ ہر چیز پر قاد رہے۔ (المعارج :40)