سورة النسآء - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ النساء مقام نزول مدینہ۔ آیات 176۔ الفاظ 335اور اس کے 24رکوع ہیں۔ ربط سورۃ: البقرہ میں مرکزی مضمون بنی اسرائیل کا کردار تھا اور اکثر مقامات میں بنی اسرائیل سے مراد یہودی ہیں۔ سورۃ آل عمران میں سر فہرست عیسائیوں کے عقیدہ و کردار پر بحث کی گئی ہے۔ سورۃ النساء میں مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بیان کے ساتھ درج ذیل مضامین ذکر کیے گئے ہیں۔ (1) سورۃ النساء کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے ڈرنے کا حکم دینے کے بعد لوگوں کو یہ بتلایا ہے کہ تم ایک ہی جان سے پیدا کیے گئے ہو۔ اس لیے اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق پورے کرو۔ بالخصوص یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا پھر مالی‘ معاشرتی اور اخلاقی حدود و قیود کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ان حقوق کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (2) کردار کی پاکیزگی کے بعد جسمانی طہارت کے لیے غسل‘ وضو اور تیمم کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ (3) عقیدہ کی پختگی اور اس کے نکھار کے لیے شرک سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور شرک کو بدترین گناہ قرار دیا ہے۔ (4) اہل کتاب کو بار بار انتباہ کرنے کے بعد وارنگ دی گئی اگر تم باز نہ آئے تو تم پر ایسا عذاب مسلط ہوگا جس سے تمہارے چہرے مسخ ہوجائیں گے۔ (5) اہل کتاب نے ہر قسم کی امانت میں خیانت کی تھی لہٰذا اس سے بچنے کے لیے امت کو امانتوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (6) مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول اللہ (ﷺ) اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنی چاہیے خلیفہ سے اختلاف اور باہمی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا اس کے ایمان کی یکسر نفی کردی گئی ہے۔ (7) مسلمانوں کو ہر حال میں اپنا بچاؤ کرنے کا حکم دیتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت‘ معذورین کو رخصت دی اور مسلمانوں کو موت سے بے خوف ہونے کا تصور دیا ہے۔ (8) حالت جہاد میں کوئی کافر حلقہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کرے تو اس کے اسلام قبول کرنے کا حکم دیا اور مومن کی حرمت کا حکم دیتے ہوئے اس کے قتل کی سزا بیان کی گئی ہے۔ (9) کتاب اللہ کے نازل کرنے کی غرض و غایت یہ بیان فرمائی کہ مسلمانوں کے تمام فیصلے اسی کے مطابق ہونے چاہییں۔ (10) منافقوں کی عادات اور کردار بیان کرتے ہوئے ان کا انجام ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ (11) اہل کتاب کو شرک اور دین میں غلو کرنے سے روکا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو فقط حضرت مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول اور کلمہ قرار دیا ہے۔ (12) سورت کی ابتدا اخلاقی حدود کے بیان سے ہوئی اور اس کے آخر میں مالی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔