الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ
سورج اور چاند ایک حساب سے (چل رہے) ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : سورۃ الرحمن میں مرکزی مضمون ” اللہ“ کی قدرتوں اور بڑی بڑی نعمتوں کا بیان ہے، ان میں شمس وقمر بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا ہے اور انہیں آپس میں اس طرح منضبط اور منسلک کیا ہے کہ سورج اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے اور چاند اپنے کام پر لگا ہوا ہے، نہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ چاند سورج کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ (یٰس : 38تا40) یہ ایسا مضبوط نظام ہے جس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا اور فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دن کو طویل کردے تو کون ہے جو رات کو لے آئے اور اگر وہ رات کو طول دے دے تو کون ہے جو سورج طلوع کرسکے ؟ ﴿قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ (القصص : 71تا73) ” ان سے پوچھوکہ کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ تم پر قیامت تک دن چڑھائے رکھے۔ تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے رات لاۓ گا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو کیا تم دیکھتے نہیں یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔“ چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرما دیجئے کہ اس سے اوقات (عبادت) اور حج کے ایام لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں۔“ (البقرہ :189) النجم کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ النجم سے مراد ستارہ ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ النجم کا یہاں معنٰی بیل دار پودا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ شمس وقمر اور نجم وشجر سب اپنے رب کی تسبیح پڑھتے اور اس کی تابعداری کرتے ہیں۔ شمس و قمر نہ صرف اپنے مقررہ حساب کے مطابق چل رہے ہیں بلکہ شمس و قمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ بھی کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے سجدے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے، نہ صرف اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں بلکہ اپنے انداز میں اس کی حمد وثناء بھی بیان کرتے ہیں۔ (الحج :18) (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھَبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَ وَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَا اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہُ ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا﴾ قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْش) (رواہ البخاری : باب ﴿وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء ﴾) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے لیکن اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل: 1۔ سورج اور چاند ایک مقرر کردہ نظام کے مطابق چل رہے ہیں اور قیامت تک چلتے رہیں گے۔ 2۔ شمس وقمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے : 1۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ ” اللہ“ کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206) 2۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ (الحدید :1) 3۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل :44) 4۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :48) 5۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل :49) 6۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن :6) 7۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم :62) 8۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر :98) 9۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج :77)