كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ بِالنُّذُرِ
لوط کی قوم نے ڈرانے والوں کو جھٹلادیا۔
فہم القرآن: (آیت 33 سے 40) ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم لوط کا کردار اور انجام۔ حضرت لوط، حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے اختیار نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کی بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ وہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مبتلا تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ (الشعراء :167) اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ بھی کیا۔ (العنکبوت :29) حضرت لوط (علیہ السلام) کا وعظ ونصیحت کرنا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا اجر نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : 160تا166) قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمھارے کام کا سخت مخالف ہوں۔ (الشعراء : 167تا168) لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم یہ بے حیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔ (الاعراف :80) ” ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔“ (الاعراف : 80تا82) ” حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو اور ہر قسم کی برائی میں ملوث ہو۔“ (العنکبوت :29) قوم کا جواب : ” اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔“ (العنکبوت :29) حضرت لوط (علیہ السلام) کی ” اللہ“ کے حضور فریاد : ” اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔“ (العنکبوت :30) قوم لوط کے ہاں عذاب کے فرشتوں کی آمد : قرآن مجید تفصیل سے ذکر کرتا ہے کہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی۔ جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا۔ لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ خوشخبری کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے پوچھا کہ تمہارا کیا پروگرام ہے ملائکہ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے۔ ملائکہ نے ان سے کہا کہ اب اس بات کو جانے دیں کیونکہ ” اللہ“ کا حکم آچکا ہے لہٰذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : 69تا76) عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں : جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود :78) ” بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔“ (ہود : 79، 80) ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بے حیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب ہوگا۔ جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے۔ یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا۔ پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : 69تا83) ﴿فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ﴾ (ھود : 82، 83) ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ بحرمردار (میت): دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ 351مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ ہے یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ 1۔ اس کے پانی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد لگا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ 2۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : 1۔ دنیا میں ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف :80) 2۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف :81) 3۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود :78) 4۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود :80) 5۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر :74) 6۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے نشان لگے ہوئے۔ (ھود :82)