سورة القمر - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ القمرکا تعارف : اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں موجود ہے یہ تین رکوع اور پچپن (55) آیات پر مشتمل ہے۔ یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہے۔ اہل مکہ قرآن مجید کی جس تیسری بڑی حقیقت کا انکار کرتے تھے وہ قیامت کا قائم ہونا ہے۔ اس کے انکار کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں تھی۔ قرآن مجید نے انہیں درجنوں دلائل اور پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دور میں مردوں کے زندہ ہونے کے واقعات سنائے لیکن اس کے باوجود وہ آپ (ﷺ) سے دلائل مانگتے تھے۔ ہجرت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ نبی (ﷺ) اور قریش کے چند سردار منٰی میں موجود تھے۔ گفتگو کے دوران یہ بات ہوئی کہ اگر آپ چاند کو دو ٹکڑے کر کے دکھائیں تو ہم آپ کی نبوت کو تسلیم کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی (ﷺ) نے چاند کو اشارہ کیا تو چاند دو ٹکڑے ہوگیا تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اس واقعے میں ایک طرف نبی (ﷺ) کی رسالت کی تائید ہوتی ہے اور دوسری طرف اس بات کا عملی ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ جس طرح چاند شق ہوا ہے اسی طرح ہی اپنے وقت پر قیامت برپا ہوجائے گی۔ لیکن اس کے باوجود قیامت کے منکر اسے تسلیم کرنے کے کیے تیار نہیں حالانکہ اس دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح بکھرے ہوئے پروانے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مختصر طور پر قوم نوح، قوم ثمود اور قوم لوط کا واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ لوگ قیامت کے منکر ہونے کی وجہ سے سرکش ہوئے اور ان کے سرکشی کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلّت کی موت اتار دیا۔ اس سورت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اے اہل مکہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ فرعون کو کس طرح بار بار انتباہ کیا گیا تھا مگر وہ ہر دلیل کو ٹھکراتا رہا جس کے نتیجہ میں بالآخر تباہی کے گھاٹ اترا۔ بتاؤ کہ کیا تم فرعون اور مذکورہ بالا اقوام سے زیادہ طاقتور ہو؟ یا وہ تم سے طاقت میں زیادہ تھیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے قیامت تو ہر صورت برپا ہو کر رہے گی اس دن مجرم منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے پھر انہیں کہا جائے گا کہ اب جہنم کا عذاب جھیلتے رہو۔ منکرین قیامت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے اسی طرح ہی قیامت کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ کام پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ اس نے تمہارے جیسے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا تو اسے نصیحت قبول کرنی چاہیے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کو آسان ترین بنا دیا ہے۔