سورة النجم - آیت 3

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 3 سے 6) ربط کلام : کفار کے الزامات کی تردید کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ وحی کے بغیر نبی (ﷺ) نہیں بولتے۔ لہٰذا نبی (ﷺ) جو کچھ فرما رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر بھی قسم اٹھائی ہے کہ نبی (ﷺ) کا اپنی خواہش کے پیچھے چلنا تو درکنار آپ اپنی مرضی سے دین کے معاملہ میں لب کشائی نہیں کرتے۔ آپ (ﷺ) جو کچھ فرماتے اور کرتے ہیں وہ آپ پروحی کی جاتی ہے۔ جو فرشتہ آپ کو وحی پہنچاتا ہے وہ جبرائیل امین ہے جو بڑا طاقت والاہے۔ اس نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ آپ تک پہنچایا ہے وہ اللہ کے حکم سے پہنچایا : (اور آپ (ﷺ) کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔( البقرۃ:97) اہل علم نے ﴿ذُوْمِرَّۃٍ﴾کے تین معانی کیے ہیں۔ بڑا طاقتور، خوبصورت اور صاحب حکمت۔ حضرت جبرائیل میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، حکمہ صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز عطا کی گئی ہے۔ خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔“ ” عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (ﷺ) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔“ (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ () قال البانی اسنادہ حسنٌ)