سورة النجم - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ النجم کا تعارف: اس سورت کا نام اس کے پہلے لفظ پر رکھا گیا ہے یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے تین رکوع اور باسٹھ (62) آیات ہیں۔ یہ سورت نبوت کے پانچویں سال مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جس وقت مسلمانوں کے لیے مکہ کے حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ مکہ والوں کے مظالم کی وجہ سے کچھ مسلمان ہجرت کر کے حبشہ جاچکے تھے۔ اس دوران ایک موقع پر نبی (ﷺ) نے سورۃ النجم ایک مجمع میں پڑھ کر سنائی جس میں کچھ مشرکین بھی بیٹھے ہوئے تھے، ان میں مطّلب بن ابی دَوَاعَہ بھی موجود تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کا کہنا ہے کہ جب نبی (ﷺ) نے سورۃ النجم کی تلاوت کی تو وہ منظر اس قدر جاذبِ دل تھا کہ جس نے اس کی تلاوت سنی وہ سجدے میں گر پڑا صرف میں ایک ایسا آدمی تھا جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ (نسائی : باب السجود فی النجم۔ مسند احمد) مشرکین کے سجدہ ریز ہونے کی خبر حبشہ پہنچی تو کچھ مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ شاید مکہ والے اسلام قبول کرچکے ہیں اس بنا پر مسلمان مکہ واپس آئے مگر یہاں کے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکے تھے۔ مکہ والوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ یہ نبی ذہنی طور پر بہک چکا ہے اسی لیے اپنے آباؤ اجداد کے دین سے گمرہ ہوچکا ہے اسی الزام کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے تارے کی قسم اٹھا کر وضاحت فرمائی کہ تمہارا ساتھی یعنی حضرت محمد (ﷺ) نا بہکا ہے اور نہ ہی گمراہ ہوا ہے۔ جس دعوت کو تم گمراہی سمجھتے ہو نبی یہ دعوت اپنی مرضی سے نہیں دے رہا ہے جو کچھ وہ ارشاد فرماتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہوتا ہے اسے وحی پہنچانے والا کوئی عام فرشتہ نہیں بلکہ ملائکہ کے سردار جبریل امین ہے جو بڑا طاقتوار اور صاحب حکمت ہے اسے حضرت محمد (ﷺ) نے دو مرتبہ براہ راست دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ جنت الماویٰ کے قریب سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا جب آپ نے جبریل امین کو دیکھا تو نا اس کی شخصیت سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی آپ کی آنکھیں چندھیائیں وہاں آپ نے نہ صرف جبریل امین کو دیکھا بلکہ آپ (ﷺ) نے اپنے رب کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ دعوت کی حقیقت اور وحی کا ایک منظر بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ سے سوال کیا گیا کہ جس لات، عزی اور منات کی پوجا کرتے ہو کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟ تم انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو جب کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو سوچو اور غور کرو کہ یہ کس قدر بری تقسیم ہے حقیقت یہ ہے اس عقیدے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے اپنی طرف سے محض ان کے نام رکھ لیے ہیں اور انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تمہارے باطل معبود اور مشکل کشا تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے کام آنا تو درکناروہ اجازت لیے بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کسی کی سفارش بھی نہیں کر پائیں گے۔ آخر میں نبی (ﷺ) کو یہ ارشاد ہوا ہے کہ آپ اس شخص سے ایک حد تک اعراض کریں کہ جس تک ہماری نصیحت پہنچ چکی ہے مگر وہ دنیا کے مفاد کی خاطر اس سے منہ موڑے ہوئے ہے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا اور نیک لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزا دے گا۔