سورة الطور - آیت 48

وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا ۖ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اپنے رب کا حکم آنے تک صبر کر، پس بے شک تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور اپنے رب کی تعریف کے ساتھ تسبیح کر جب تو کھڑا ہو۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 48 سے 49) ربط کلام : مشرکین کو عذاب کی دھمکی دینے کے بعد نبی محترم (ﷺ) کو صبر کرنے کی تلقین۔ توحید کے دلائل دینے اور کفار کو عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد نبی (ﷺ) کو تلقین کی گئی کہ آپ حوصلہ اور مستقل مزاجی سے کام لیں اور ہر حال میں یقین رکھیں کہ آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جہاں نبی (ﷺ) کو تسلی دینے کے لیے وہی انداز اور الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے استعمال کیے گئے۔ قوم کے بارے میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا قبول ہوئی تو انہیں حکم ہوا کہ آپ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے کشتی تیار کریں کیونکہ عنقریب آپ کی قوم کو تباہ کردیا جائے گا۔ (ھود :37) حضرت موسیٰ اور ہاورن کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جاؤ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں البتہ میری یاد کو نہ بھولنا۔ (طٰہٰ: 42تا46) نبی اکرم (ﷺ) کو بھی انہی الفاظ میں تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق حوصلہ رکھیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ قیام اور ذکر : اس سورت کے آخر میں حکم ہوا ہے کہ آپ (ﷺ) جب اٹھیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ اہل علم نے اٹھنے سے مراد پانچ قسم کا اٹھنا لیا ہے۔ 1۔ آپ (ﷺ) جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوں اور وہاں سے اٹھیں تو اپنے رب کی تسبیح کریں۔ اس فرمان کی روشنی میں آپ نے اس بات کو مجلس کے آداب میں شامل فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص مجلس سے اٹھے تو اسے یہ کلمات پڑھنے چاہئیں جس سے مجلس میں کی گئی سطحی باتوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ ( سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ أَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ) (رواہ الترمذی : باب مایقول اذا قام من المجلس، قال الشیخ البانی صحیح) 2۔ آپ (ﷺ) نے ﴿حِیْنَ تَقُوْم﴾پر اس طرح بھی عمل کیا اور اپنی امت کو تعلیم دی کہ جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ () إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ قَال باسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ.) (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ إِذَا نَامَ) ” حضرت حذیفہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (ﷺ) سونے کا ارادہ فرماتے ہیں تو یہ دعا پڑھتے۔ ” میں تیرے نام سے ہی مرتا ہوں اور تیرے نام ہی سے جیتا ہوں۔“ اور جب سو کر اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔” میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس نے مجھے مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔“ 3۔ جب اللہ کی دعوت دینے کے لیے اٹھو توسب سے پہلے حمدو ثناء بیان کیا کرو۔ ” نبی (ﷺ) خطاب شروع کرنے سے پہلے اللہ کی حمدوثناء پڑھتے۔“ (رواہ البخاری : باب المکاتب) 4۔ اٹھنے سے مراد نماز کے لیے اٹھنا ہے۔ اس لیے آپ (ﷺ) نماز کے آغاز میں یہ کلمات پڑھتے تھے۔ (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اْسمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ.) ( رواہ مسلم : باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لاَ یَجْہَرُ بالْبَسْمَلَۃِ) 5۔ جب کسی کام کا آغاز کیا جائے تو اس کی ابتداء ” اللہ“ کے نام سے کی جائے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ () قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ) (رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔“ 6۔ امام ابن جریر نے ﴿حِیْنَ تَقُوْم﴾کا یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ جب دوپہر کا قیلولہ کرکے اٹھو تو ظہر کی نماز ادا کرو۔ بعض اہل علم نے رات کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور رتہجد کی نماز لی ہے۔ ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَـتَـهَجَّدْ بِه نَافِلَـةً لَّكَ عَسٰى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ (بنی اسرائیل :79) ” اور رات کے کچھ حصے میں آپ تہجد پڑھیں اس حال میں کہ آپ کے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے۔“