سورة الطور - آیت 40

أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُم مِّن مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا تو ان سے کوئی اجرت مانگتا ہے؟ پس وہ تاوان سے بوجھل کیے جانے والے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 40 سے 43) ربط کلام : کفار اور مشرکین سے مزید سوالات۔ کیا آپ (ﷺ) ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ جس کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ؟ کیا ان کے پاس کوئی غیب کی خبر آتی ہے جس کو یہ لکھ لیتے ہیں ؟ کیا یہ مزید مکر و فریب کرنا چاہتے ہیں ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خود ہی اپنے مکر میں پھنس جائیں گے۔ کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود اور مشکل کشا ہے جس کے کھونٹے پر ناچتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ جن کو تم شریک بناتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے مبرّا اور بے نیاز ہے۔ یہاں اہل مکہ اور ہر مشرک اور کافر کو مختلف قسم کے سوال کیے گئے ہیں تاکہ قیامت تک کے لیے انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کے پاس کفر و شرک کی کوئی علمی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ اس موقع پر مشرکین سے جو مزید سوالات کیے گئے وہ یہ تھے۔ کیا آپ (ﷺ) اپنے کام کا ان سے صلہ مانگتے ہیں جس کا یہ بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ آدمی کی یہ طبعی کمزوری ہے کہ جب اس سے کوئی چیز مانگتا ہے تو بے شک وہ فیاض کیوں نہ ہو پھر بھی مانگنے والے کے سوال کو محسوس کرتا ہے۔ اگر سوال کرنے و الا باربار مانگتا ہے تو فیاض شخص بھی سوال کرنے والے کو دلی طور پر اچھا نہیں سمجھتا۔ آپ (ﷺ) کو مخاطب فرما کر اہل مکہ کو شرم دلائی گئی ہے کہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ نبی (ﷺ) کسی اعتبار سے بھی تم پر بوجھ نہیں لیکن پھر بھی تم آپ کی شخصیت اور دعوت کو بوجھ محسوس کرتے ہو۔ اہل مکہ سے نواں سوال یہ کیا گیا کہ کیا ان کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں؟ جنہیں یہ اپنے پاس لکھ لیتے ہیں اور اس بنیاد پر نبی (ﷺ) سے جھگڑا کرتے ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ یہ کوئی مکرو فریب کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اس میں خود ہی پھنس کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہر سازش اور شرارت کو ناکام کیا اور نبی اکرم (ﷺ) کو کامیاب فرمایا۔ اس بنا پر حکم ہوا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ مسائل: سورہ الطور کے دوسرے رکوع میں پندرہ مرتبہ ” اَمْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سوال کرنے اور ” یا“ کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو کفار کے لیے بار بار استعمال کیا ہے تاکہ کافر سوچنے پر مجبور ہوں کہ سرور دوعالم (ﷺ) جو کچھ فرمارہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ 1۔ کیا کافر آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے بارے میں برے حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں فرمائیں تم میرے بارے میں انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتاہوں۔ 2۔ کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھاتی ہیں۔ 3۔ یا یہ لوگ سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں۔ 4۔ کیا کافر کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن خود بنالیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وہ اس الزام میں سچے ہیں تو انہیں قرآن کے چیلنج کا جواب قبول کرنا چاہیے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں کیا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؟ یا اپنے آپ پیدا ہوگئے ہیں۔ 6۔ کیا انہوں نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ 7۔ کیا یہ آپ (ﷺ) کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں ؟ 8۔ کیا وہ آپ کے رب کے خزانوں پر چوکیدار ہیں؟ 9۔ کیا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ یہ آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں۔ اگر سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرنی چاہیے۔ 10۔ کافر کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ” اللہ“ کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ہیں؟ 11۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں جس کے بوجھ تلے یہ دبے جارہے ہیں۔ 12۔ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں۔ 13۔ کیا یہ کوئی اور سازش کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ اپنی سازش میں خود ہی پھنس جائیں گے۔ 14۔ کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبودِبرحق ہے ؟ انہیں بتلا دیں کہ اللہ ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے مبرّاہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی (علیہ السلام) کفار کے الزامات سے مبرّا ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : (یٰس : 69، الحاقہ : 41، القلم : 2، القصص : 88، النمل : 60، النمل : 62، النمل : 63، النمل : 64، القصص : 71، الفرقان : 3، الانبیاء :99)