سورة الطور - آیت 29

فَذَكِّرْ فَمَا أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس نصیحت کر، کیوں کہ تو اپنے رب کی مہربانی سے ہرگز نہ کسی طرح کاہن ہے اور نہ کوئی دیوانہ۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت29سے32) ربط کلام : جنت کے انعامات اور ان کے جذبات کا ذکر کرنے کے بعد خطاب کا رخ نبی (ﷺ) کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ آپ کی دعوت کا مقصد لوگوں کو رب کریم اور اس کی جنت کی طرف بلانا تھا۔ اس لیے حکم ہوا کہ آپ (ﷺ) کفار کے الزامات کی پرواہ کیے بغیر دعوت کا کام جاری رکھیں۔ مکہ کی تیرہ سالہ نبوت کی زندگی میں نبی کریم (ﷺ) کفار کو شب وروز سمجھا تے رہے کہ آؤ اس دعوت کو قبول کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ گے۔ لیکن بدنصیبوں کا حال یہ تھا کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو کاہن اور دیوانہ کہتے تھے۔ کبھی آپ کو لوگوں کے سامنے شاعر کہتے اور اپنے ساتھیوں کو دلاسہ دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنے نظریات پر قائم رہیے ! یہ شخص عنقریب حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال میں آپ (ﷺ) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور دیوانے نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں۔ حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مجنون شخص (UBNORMAL) حواس باختہ ہوتا ہے۔ اسے خبر نہیں ہوتی کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لباس کا بھی خیال نہیں رکھ سکتا۔ مجنون کے مقابلے میں کاہن شخص اپنے فن میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو پھنسانے کے لیے ایسے الفاظ اور اندازاختیار کرتا ہے کہ عقل مند اور جہاندیدہ لوگ بھی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مجنون کو اپنے تن کی ہوش نہیں ہوتی۔ کاہن باتوں باتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ جہاں تک شاعر کا معاملہ ہے۔ شاعر کے کلام میں نہ صرف مبالغہ پایا جاتا ہے بلکہ اس کے کلام میں تضاد بیانی بھی ہوا کرتی ہے۔ شاعروں کی غالب ترین اکثریت بے عمل ہوتی ہے۔ نبی (ﷺ) پوری دنیا کے لیے اسوہ حسنہ بنائے گئے ہیں اور نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائزہونے سے پہلے بھی آپ اعلیٰ کردار اور اخلاق کے پیکر تھے۔ اکثر شاعر عاشق مزاج ہوتے ہیں۔ نبی (ﷺ) نے زندگی بھر کسی غیرمحرم عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شاعر کا کلام زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتا۔ نبی معظم (ﷺ) جو کلام پیش کررہے تھے اس کی رہتی دنیا تک گارنٹی دی گئی ہے۔ شاعراپنا کلام پیش کرکے لوگوں سے مالی یا اخلاقی داد وصول کرتا ہے۔ نبی (ﷺ) ان باتوں سے مبرّہ اور ارفع تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے خطاب میں کبھی شعر نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا۔ (یٰسٓ:69) یہاں تک اہل مکہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ نبی (ﷺ) کا نام اور کام بہت جلد حوادث زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کا انہیں آپ (ﷺ) کی زبان اطہر سے یوں چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کرتاہوں۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (ﷺ) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مٹ گئے لیکن آپ کا نام اور کام ہر دور میں زندہ رہا اور رہے گا۔ اس لیے فرمایا کہ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا حقیقت میں یہ لوگ باغی اور شرارتی ہیں گویا کہ آپ (ﷺ) کے مخالف بے عقل بھی تھے، باغی اور شرارتی بھی۔ بے عقل اور شرارتی لوگ زیادہ مدت تک اپنے کام میں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ (الانشراح :4) ” ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے۔“ مسائل: 1۔ داعی کو مخالفوں کے الزامات کی پرواہ کیے بغیر دعوت کا کام جاری رکھنا چاہیے۔ 2۔ نبی (ﷺ) نہ شاعرتھے اور نہ مجنون تھے۔ 3۔ نبی معظم (ﷺ) کو کاہن اور مجنون کہنے والے خود پاگل تھے۔ 4۔ بے عقل اور شریر لوگ ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کے نام اور کام کو ہمیشہ زندرکھا ہے اور زندہ رکھے گا۔ تفسیر بالقرآن: نبی (ﷺ) نہ شاعر تھے اور نہ آپ نے کبھی شعر گوئی کی تھی : 1۔ ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھلائے اور نہ ہی یہ کام آپ کے لائق ہے۔ (یٰس :69) 2۔ شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں وہ ہر وادی میں گھومتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ (الشعراء : 224تا226) 3۔ قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ :41) 4۔ آپ (ﷺ) اپنے رب کے فضل وکرم سے شاعر اور مجنون نہیں ہیں۔ ( القلم :2)