وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد کسی بھی درجے کے ایمان کے ساتھ ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان سے ان کے عمل میں کچھ کمی نہ کریں گے، ہر آدمی اس کے عوض جو اس نے کمایا گروی رکھا ہوا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : جنتی والدین کے ساتھ ان کی نیک اولاد کا ملاپ اور مقام۔ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کرتے رہے، ان کی اولادنے بھی ایمان لانے اور نیک عمل کرنے میں اپنے والدین کی پیروی کی۔ جب دونوں جنت میں داخل کیے جائیں گے اور اپنے اپنے مقام پر قیام پذیر ہوں گے تو جنت کے نچلے درجے میں رہنے والی اولاد کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے ماں باپ کے ساتھ ملادے گا اور ان کے ماں باپ کے درجات میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ گویا کہ ان کی اولاد کے درجات میں اضافہ کردیا جائے گا۔ فطری طور پر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ رہیں کسی کے درجات میں کمی کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے عدل اور رحمت کے خلاف ہے اس لیے وہ ان کی اولاد کے درجات میں اضافہ فرما کر انہیں ان کے ماں باپ کے ساتھ اکٹھا کردے گا۔ قرآن مجید نے یہاں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ اگر والدین کے درجات کم ہوئے اور ان کی اولاد کا مقام بلند ہوا تو پھر ان کے والدین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ رب کریم کی رحمت سے یہی امید ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بھی وہی سلوک فرمائے گا جو کم درجہ رکھنے والی اولاد کے ساتھ کرے گا۔ چند سطور کے بعد درج ہونے والی حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ دوسرا فرمان یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ اس کا مفہوم یہی سمجھ آتا ہے کہ خالق کا اپنی کائنات پر حق ہے جسے ادا کرنا مخلوق کی ذمہ داری ہے۔ اس قرض کا یوں ذکر کیا گیا ہے۔ ” ہر شخص اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے۔“ (المدثر :38) جو شخص اس قرض کو ادا کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اس قرض کو ادا نہیں کرے گا وہ گروی ہونے کی وجہ سے جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ ” معاذ جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اس کے مطابق عمل کیا اس کے والدین کو قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہوگی اگر وہ تم میں ہو تو اس پر عمل کرنے والے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔“ ( رواہ ابو داؤد : باب فِی ثَوَابِ قِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ، حکمہ ضعیفٌ) (عَنْ أَبِیْ بُرِیْدَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ فِی الْإِنْسَانِ ثَلٰثُمِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ مَفْصِلًا فَعَلَیْہِ أَنْ یَّتَصَدْقَ عَنْ کُلِّ مَفْصِلٍ مِنْہُ بِصَدَقَۃٍ قَالُوْا وَمَنْ یُّطِیْقُ ذٰلِکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَالَ اَلنُّخَاعَۃُ فِی الْمَسْجِدِ تَدْفِنُہَا وَالشَّیْءُ تُنَحِّیْہِ عَنِ الطَّرِیْقِ فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَکَعَتَا الضُّحٰی تُجْزِءُکَ.) ( رواہ ابو داؤد : باب فی إماطۃ الأذی عن الطریق قال الالبانی صحیحٌ) ” حضرت ابو بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا آپ (ﷺ) فرما رہے تھے کہ انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہوتے ہیں اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! اتنی طاقت کون رکھتا ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا : مسجد میں پڑھی ہوئی تھوک کو دفن کر دے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے، اگر اتنی طاقت نہیں رکھتا تو چاشت کی دو رکعتیں تجھے کافی ہوجائیں گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَا مِنْ أَمِیرِ عَشَرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَدُہُ مَغْلُولَۃٌ إِلَی عُنُقِہِ.) ( رواہ البیہقی : باب کَرَاہِیَۃِ الإِمَارَۃِ، قال الشیخ الالبانی صحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : کوئی دس آدمیوں کا امیر ہو تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا اس کا ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھا ہوگا۔“ ” حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں رسول محترم (ﷺ) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی آخری لکڑی تھی۔ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ) مسائل: 1۔ جنت میں کم درجہ مقام رکھنے والی اولاد کو ان کے ماں باپ کے ساتھ ملانے کے لیے ان کے درجات میں اضافہ کیا جائے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ماں باپ کے درجات میں کمی کرنے کی بجائے ان کی اولاد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ 3۔ ہر شخص اپنے اعمال کے لحاظ سے گروی رکھا گیا ہے۔