يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
اے بنی اسرائیل! میری نعمت یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور تم میرا عہد پورا کرو، میں تمھارا عہد پورا کروں گا اور صرف مجھی سے پس ڈرو۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو امت محمدیہ سے پہلے دنیا میں سب سے زیادہ عزت و عظمت اور اقتدارو اختیار ملا مگر انہوں نے اس کی ناقدری اور ناشکری کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے ان کی ذلت و رسوائی کے اسباب کی تفصیل سورۃ البقرۃ کی سو آیات میں بیان ہوئی ہے۔ (عہد کی تفصیل دیکھیں البقرۃ :83) ہر دور میں اہل علم کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے جس کا عبرانی زبان میں معنٰی ہے۔ ” اللہ کا بندہ“ لہٰذا بنی اسرائیل کا معنٰی ہوا کہ اللہ کے بندے کی اولاد۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا اصلی وطن کنعان، فلسطین تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں آباد ہوئے۔ ان کے آنے کے بعد ان کے آبائی وطن کنعان، فلسطین اور پورے شام پر عمالقہ نامی قوم نے قبضہ کرلیا۔ جناب یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جن میں چوتھے بیٹے کا نام یہودہ تھا۔ اسی نسبت سے بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے دور میں بڑی معزز اور محترم قوم تھی ان میں ہزاروں جلیل القدر انبیاء ہوئے ہیں جن میں سب سے نمایاں حضرت موسیٰ اور آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوئے ہیں۔ مصر میں جب بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم ڈھانے شروع کیے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انتھک اور بے مثال جدو جہدکرکے ان کو فرعون کے جور وستم سے نجات دلوائی۔ فرعون دریا میں غرق ہوا تو اس کے بعد بنی اسرائیل کو عمالقہ سے جہاد کا حکم ہوا۔ بنی اسرائیل فلسطین کی طرف چلے تو قریب جا کر جب انہیں عمالقہ کی طاقت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر انہوں نے جہاد سے انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں انہیں چالیس سال تیہ کے صحرا میں بطور سزا رہنا پڑا۔ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) فوت ہوئے پھر انہوں نے یوشع بن نون کی زیر کمان جہاد کیا اور فاتحانہ انداز میں فلسطین داخل ہوئے۔ بنی اسرائیل میں مجموعی طور پر یہودی اور عیسائی دونوں شامل ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ جس کا علم قرآن مجید کے سیاق وسباق سے ہوتا ہے۔ اس کے سیاسی ومذہبی راہنماؤں‘ حکمرانوں اور عوام کے گھناؤنے کردار کا قرآن مجید کی ابتدا میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت دنیا میں یہ دو بڑے مذاہب تھے۔ باقی مذاہب ان کی بگڑی ہوئی شکلیں تھیں۔ ہندوستان میں جسے قدیم تاریخ میں بلادالہند کہا جاتا ہے ہندو اپنے مذہب کو تین ہزار سال پرانا مذہب ثابت کرتے ہیں اس مذہب کی اکثر رسومات اور گائے پرستی کا تصور یہودی مذہب سے ہی لیا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی اصلاح کے لیے بدھ مت کی تحریک چلی جو اپنی عادات و رسومات کے لحاظ سے عیسائیت کے زیادہ قریب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر سورۃ بقرۃ کو قرآن مجید کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ تاکہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے شخص کے ذہن میں شروع ہی سے بنیادی امور اور یہ بات منقش ہوجائے کہ پہلی اقوام بالخصوص بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے اسباب کیا تھے؟ وہ کیوں ذلت و رسوائی کے اندھے کنویں میں الٹے ہو کر گرے؟ اس کے پیچھے ان کے علماء اور سیاسی راہنماؤں کا کیا کردار تھا؟ بنی اسرائیل کے حوالے سے امت مسلمہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اس عظیم قوم کا کردار سامنے رکھو کہ بزرگوں کی گدی نشینی‘ صاحب زادگی، مذہبی امتیازات‘ ابناء اللہ کے بھاری بھرکم دعوے، اقتدار اور وسیع اختیار ات بھی اس قوم کو ذلت سے نہ بچا سکے۔ اس سبق کے ساتھ ہی یہ بتلانا مقصود ہے کہ مدینہ اور اس کے گرد و پیش جتنے قبائل اور قومیں آباد تھیں وہ یہودیوں کو بزرگوں کی اولاد اور انبیاء کے وارث تصور کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے یہ قبائل یہودیوں کے نظریات کو سچ اور حق کی کسوٹی سمجھتے تھے۔ ان اسباب کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے دلربا انداز میں سمجھاتے ہوئے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے بندے یعقوب کی اولاد! میری عطا کردہ نعمتوں، فضیلتوں اور رفعتوں کا احساس کرتے ہوئے تمہارا اولین فرض بنتا ہے کہ نبی آخر الزماں {ﷺ}کی مخالفت کرنے کی بجائے ان کی نصرت و حمایت کرتے ہوئے حلقۂ اسلام میں داخل ہو کر اس عہد سے وفا کرو جو تم سے توحید اور خاتم النبیین کے بارے میں لیا گیا ہے۔ میں بھی ایفائے عہد کے بدلے تمہیں دوبارہ نعمتوں اور عزتوں سے سرفراز کروں گا۔ یاد رکھنا اگر سابقہ مقام کی بحالی اور عزت رفتہ کے خواہش مند ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں {ﷺ}کی قیادت میں آئے بغیر یہ شرف نہیں مل سکتا۔ اس کے لیے درج ذیل امور کو بجا لانا ہوگا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو پہلے خطاب میں ابتدائی سبق اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات کی یاد دہانی کے طور پر سولہ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ 1۔ میری نعمتوں کو ہر دم یاد رکھا کرو۔ 2۔ تم عہد وفا کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی ایفائے عہد ہوگا۔ 3۔ ہمیشہ اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ 4۔ قرآن مجید پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ یہ تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ 5۔ سب سے پہلے تم ہی کفر کرنے والے نہ بنو۔ 6۔ دنیا کے معمولی مفاد کے بدلے اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ 7۔ حق اور باطل کے التباس سے اجتناب کرو۔ 8۔ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔ 9۔ نماز ادا کرو۔ 10۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے رہو۔ 11۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ یاد رہے کہ یہودیوں نے رکوع کو نماز سے نکال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے رکوع کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے۔ 12۔ لوگوں کو نیکی کا حکم کرو مگر اپنے آپ کو بھول جانے سے بچو۔ 13۔ اللہ کی دی ہوئی عقل کا صحیح استعمال کرتے رہو۔ 14۔ مصائب پر صبر کرو۔ 15۔ اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کیا کرو۔ 16۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا عقیدہ پختہ اور اس کے تقاضے پورے کرو۔ ان میں سے ہر فرمان ایک مضمون کا حامل اور اصلاح ذات اور فلاح جماعت کا جامع پروگرام پیش کر رہا ہے۔ پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان کے دعوے دار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی بات کا انکار کرے جو اس کے نظریہ کی تائید کر رہی ہو گویا کہ اہل علم کی یہ شان نہیں کہ وہ کفر کے امام بنیں انہیں تو ہدایت کا پیش رو ہونا چاہیے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ 2۔ اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ 3۔ اس کا خوف دل و جان میں بسائے رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن وعدہ پورا کرنا چاہئے: 1-اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 177) 2-اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام: 152) 3-ایماندار اللہ تعالی کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد: 20) 4-اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل: 91) 5-قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء: 34) 6-اے ایمان والو عہد پورے کرو۔ (المائدہ: 1) 7-جو اللہ کا عودہ پورا کرے گا اللہ تعالی اسکے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرہ: 40)