سورة الذاريات - آیت 16

آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انھیں دے گا، یقیناً وہ اس سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت16سے19) ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا کے ذکر کے بعد جنتیوں کا تذکرہ، قیامت پر ایمان لانے اور اس کی جوابدہی کا خوف رکھنے والوں میں یہ صفات پید اہوتی ہیں۔ قیامت پر یقین رکھنا انسان کو برائیوں سے بچاتا ہے اور نیکی کے کاموں پر آمادہ کرتا ہے، اس لیے قیامت پر یقین رکھنے والوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ لوگ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن میں چشمے جاری ہوں گے اور اپنے رب سے جنت کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں نیکی کرنے والے تھے۔ وہ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے اور اپنے مال سے سائل اور اس شخص کو دیتے تھے جو مستحق ہونے کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی تین صفات ذکر فرمائی ہیں۔ 1۔ جنتی لوگ ہر حال میں اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والے ہوتے ہیں۔ 2۔ جنتی اس خیال اور نیت سے صدقہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہی ان تک پہنچا رہے ہیں اسی لیے وہ ان غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہیں جو اپنی حیا اور خوداری کی وجہ سے دوسروں سے نہیں مانگتے۔ 3۔ متقی لوگ رات بھر خراٹے لینے کی بجائے آدھی یا رات کا کچھ حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ () اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ یَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَیِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِیْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَیْرُکَ) (رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والاہے، تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے، تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے، تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت، دوزخ، انبیاء، محمد، قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا فرمانبردار اور تجھ پر ہی ایمان رکھتاہوں‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں، تیری مدد سے ہی کفار اور مشرکین سے لڑتاہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتاہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔“ مسائل: 1۔ متقی لوگ سحری کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ بالفاظ دیگر صبح کے وقت اپنا احتساب کرتے ہیں۔ 2۔ متقی لوگوں کی یہ بھی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال سے ان لوگوں کو دیتے ہیں جو اپنی حاجت کے لیے ان سے سوال کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی دیتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود نہیں مانگتے۔ اپنی حیاء کی وجہ سے کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرتے۔ 3۔ جنت میں چشمے جاری ہوں گے۔ 4۔ جنتی نیک اعمال کے بدلے اپنے رب سے انعامات پائیں گے۔ 5۔ جت میں جانے والے لوگ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ تہجد پڑھنے میں گزارتے ہیں۔ 6۔ جنت میں جانے والے حضرات اپنے رب کے حضور صبح کے وقت استغفار کرتے ہیں۔