سورة الذاريات - آیت 7

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

قسم ہے آسمان کی جو راستوں والا ہے !

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت7سے15) ربط کلام : گزشتہ آیات میں قیامت برپا ہونے کے دلائل دئیے گئے اب قیامت کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کی تردید کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے راستوں والے آسمان کی قسم اٹھا کر اس بات کی تردید کی ہے کہ جو لوگ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں تضاد فکری اور بےیقینی کا شکار ہیں اور اسی وجہ حق سے پھرئے ہوئے اور گمراہ ہیں۔ اپنی تضاد فکری کی وجہ سے مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کے بے خبر اور برگشتہ ہونے کی دلیل ہے۔ قیامت کے بارے میں وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ بے علم اور قیامت کے منکر ہونے کے باوجود سوال کرتے ہیں کہ یہ کب آئے گی۔ حالانکہ اس دن وہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ اس میں چیخ و پکار کریں گے تو ملائکہ جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب اپنی یا وہ گوئی کی سزا پاؤ کیونکہ تم اس کے بارے میں بےیقینی اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ آسمان کے بارے میں ” ذَاتِ الْحُبُکِ“ کے لفظ استعمال فرمائے ہیں۔” حِباک“ کی جمع ” حُبُک“ ہے جس کا معنٰی راستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں راستے اور دروازے بنائے ہیں۔ جن راستوں سے چل کر ملائکہ آسمان پر چڑھتے اور اترتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کی تضاد فکری اور بےیقینی کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم رہنے کی بجائے مختلف قسم کی باتیں اور حجت بازیاں کرتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ قیامت ہرگز برپا نہیں ہوگی۔ کچھ کہتے ہیں کہ دنیاکا نظام اس طرح ہی چلتارہنا ہے۔ جو مرگیا وہ مٹی کے ساتھ جا ملا۔ اس نے نہ اٹھنا اور نہ اس نے حساب دینا ہے۔ انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے کیونکہ دنیا میں مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعض مذاہب میں آواگون کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی اور شکل میں دنیا میں پلٹ آتا ہے اگر اس کے اعمال اچھے ہوں تو وہ اچھے جانور یا پرندے کی شکل میں دنیا میں رہتا ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہوں تو وہ گدھے یا کسی درندے کی شکل میں زندگی گزارتا ہے۔ گویا کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں رہتا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ مکہ میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا دعوی تھا کہ بالفرض قیامت قائم ہوگئی تو ہم آخرت میں بھی مسلمانوں سے بہتر ہوں گے۔ قیامت کا انکار کرنے والے جنت اور جہنم کے بارے میں بھی مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ عجب بات یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کی تضاد فکری پر دلالت کرتی ہے کیونکہ جو آدمی کسی چیز کے وجود کا انکار کرتا ہے اس کے متعلق اسے نہ جلد بازی کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے اس کے بارے میں قیل قال کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی بےیقینی اور تضاد فکری میں مارے جائیں گے۔ قیامت تو ہر صورت برپا ہو کر رہے گی اس کا انکار کرنے والے ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ () قَالَ تُفْتَحُ أَبْوَاب السَّمَاءِ فِی کُلِّ اثْنَیْنِ وَخَمِیسٍ فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لاَ یُشْرِکُ باللَّہِ شَیْئًا إِلاَّ امْرَأً بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیہِ شَحْنَاءُ قَالَ فَیُقَالُ انْتَظِرْ ہَذَیْنِ حَتَّی یَصْطَلِحَا) (رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ الشَّحْنَاءِ وَالتَّہَاجُرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا آسمان کے دروازے ہر سوموار اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں اور ہر شخص کو معاف کردیا جاتا ہے جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو مگر اس شخص کو معاف نہیں کیا جاتا جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کو چھوڑدو یہاں تک کہ یہ صلح نہ کرلیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ تضادفکری اور گمراہی کا شکار ہیں۔ 2۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو جہنم کی آگ میں پھینکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے منکرین کی سزا : 1۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج :9) 2۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم :16) 3۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان :11)