سورة ق - آیت 41

وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور کان لگا کر سن جس دن پکارنے والا ایک قریب جگہ سے پکارے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت41سے44) ربط کلام : نبی (ﷺ) کو صبر اور ذکر کی تلقین کرنے کے بعد اب پھر قیامت قائم ہونے کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ کوئی شخص قیامت کو تسلیم کرے یا اس کا انکار کرے قیامت بہرحال برپا ہوکررہے گی جس کا دوسرا مرحلہ اسرافیل کے دوسری مرتبہ صور پھونکنے پر ہوگا جونہی اسرافیل صورپھونکیں گے۔ تو زمین جگہ جگہ سے شق ہوجائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر کوئی یہ محسوس کرے گا کہ اس کے پاس کھڑا ہوا کوئی اسے محشر کے میدان میں حاضر ہونے کا حکم دے رہا ہے۔ یہ آواز سنتے ہی ہر کسی کو یقین ہوجائے گا کہ اب قیامت قائم ہوچکی ہے اور بلانے والا قیامت کی طرف بلارہا ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر کی طرف اس طرح جارہے ہوں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کی طرف جاتا ہے۔ ( یٰس :51) اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا جارہا ہے کہ ہم ہی زندہ کرنے والے ہیں اور ہم ہی مارنے والے ہیں اور ہماری طرف ہی لوگوں کو پلٹ کر آنا ہے۔ اسرافیل کو صور کا حکم دینا، قیامت کا برپا کرنا، لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھا نا اور محشر کے میدان میں جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔ گویا کہ جس طرح زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو پیدا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں اس طرح ہی لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں بلکہ آسان تر ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا دو صور پھونکنے کے درمیان کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس مہینے ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ یعنی ابوہریرہ (رض) بھول گئے کہ نبی (ﷺ) نے کتنی مدت بتلائی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ (رواہ البخاری : باب İیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًاĬ زُمَرًا) (دُمچی سے مراد اس کا کوئی خاص ذرّہ ہے جس کو انگلش میں (SMALL TAIL) کہتے ہیں محفوظ رہتا ہے۔) (وَعَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَامَاتَ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ باللَّہِ تَعَالَی عِنْدَ الْمَوْتِ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا‘ ہر شخص اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ہر کوئی صور کی آواز اس طرح سنے گا جیسے اس کے پاس کھڑا ہوا کوئی آواز دے رہا ہے۔ 2۔ قبر سے نکلتے ہی ہر انسان کو یقین ہوجائے گا کہ قیامت برپا ہوچکی ہے۔ 3۔ قیامت کے دن زمین پھٹنے کے ساتھ ہی لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ 4۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو اکٹھا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنا مشکل نہیں۔ 5۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرنے اور مارنے والا ہے اور سب نے اسی کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن: ” اللہ“ موت وحیات پر قادر ہے : 1۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبہ :116) 2۔” اللہ“ ہی معبود برحق ہے وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (الحج :6) 3۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران :156) 4۔ ” اللہ“ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الاعراف :158) 5۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو زندہ کرتی اور مارتی ہے دن اور رات کا مختلف ہونا اسی کے حکم سے ہے (المومنون :80) 6۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان :8) 7۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الحدید :2)