قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
اس کا ساتھی (شیطان) کہے گا اے ہمارے رب ! میں نے اسے سر کش نہیں بنایا اور لیکن وہ خود ہی دور کی گمراہی میں تھا۔
فہم القرآن: ربط کلام : جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہونے کے ساتھ ہی اس کا ساتھی اس سے برأت کا اعلان کردے گا۔ (آیت27سے30) جونہی جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہوگا تو خوف کے مارے اس کا ساتھی پکار اٹھے گا کہ اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ اس کے جواب میں رب ذوالجلال فرمائے گا کہ میرے حضور بحث نہ کرو کیونکہ میں نے پہلے ہی تمہیں جہنم کے بارے میں انتباہ کردیا تھا۔ اب جہنم میں داخل ہوجاؤ اور یاد رکھو! کہ میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی میں اپنے بندوں پرزیاتی کرنے والا ہوں۔ جہنمی کے ساتھی سے مراد اس کے برے ساتھی اور رشتہ دار ہیں جن میں سب سے برا ساتھی شیطان ہے جو انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے انسان برے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوش رہتا ہے۔ قیامت کے دن شیطان ہر مجرم سے یہ بات کہہ کرمنہ پھیرلے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ ثابت ہوا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا اس کی میں نے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تم کو کسی چیز کی طرف بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“ (ابراہیم :22) دوسری طرف جہنمی اپنے ہاتھوں کو کاٹتے اور روتے ہوئے کہے گا کہ ہائے کاش! کہ میں رسول کاراستہ چھوڑ کر فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا۔ اس نے مجھے اللہ کی نصیحت بھلادی۔ (الفرقان : 28،29) شیطان کی برأت اور مجرم کے اعتراف کے باوجود اسے جہنم میں جانے کا حکم ہوگا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ بندے اپنے آپ پر زیادتی کرتے ہیں۔ لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گروہ در گروہ مجرموں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اسی طرح کئی ارب کھرب انسان جہنم میں داخل ہوں گے۔ با لآخر جہنم سے اللہ تعالیٰ استفسار فرمائے گا کیا تو بھر گئی ہے اور تیری اشتہاپوری ہوچکی ہے ؟ جواب میں جہنم بلبلا کر کہے گی کہ میرے رب! ابھی میرا پیٹ نہیں بھرا اس لیے اور مجرموں کو مجھ میں داخل کیا جائے۔ اس پر جہنم میں اللہ تعالیٰ اپنا قدم مبارک رکھیں گے جس سے جہنم کی کی مزید چاہت ختم ہوجائے گی۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ) (رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم یہکہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ جہنم کہے گی تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم! بس!۔ بس! اس کے مقابلے میں جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوتی رہے گی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ جہنم کا حکم سنتے ہی شیطان اپنی برأت کا اظہار کرے گا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے بار بار متنبہ کردیا ہے۔ 3۔ رب ذوالجلال کے حضور کسی کو بحث وتکرار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : 1۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبہ :70) (العنکبوت :40) (الروم :9) 2۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف :49) 3۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء :47) 4۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا۔ (یٰس :54) (حٰم السجدۃ:46)