إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔
فہم القرآن: (آیت4سے5) ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں نبی (ﷺ) کا ادب و احترام سکھلایا گیا ہے اور اب ان لوگوں کی سرزنش کی گئی ہے جنہوں نے آپ (ﷺ) کے احترام کے منافی حرکت کی تھی۔ رسول معظم (ﷺ) کے مقام اور احترام سے جو لوگ واقف نہیں تھے یا جن کے دلوں میں منافقت اور اپنے بڑے پن کا خنّاس تھا۔ وہ جب آپ کی خدمت میں آتے تو آپ سے اس طرح مخاطب ہوتے جس طرح اپنے جیسے یا اپنے سے چھوٹے آدمی کے ساتھ مخاطب ہوا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی رائے پر اصرار بھی کیا کرتے تھے۔ اسی قبیل کے لوگوں سے قبیلہ بنوتمیم کے کچھ لوگ تھے۔ جب وہ آپ کی ملاقات کے لیے مدینہ آئے تو آپ دوپہر کے وقت اپنے گھر میں آرام فرما تھے۔ اخلاق اور احترام کا تقاضا تھا کہ یہ لوگ انتظار کرتے کہ آپ کب اپنے گھرسے مسجد تشریف لاتے ہیں، اور یہ لوگ آپ سے ملاقات کرتے لیکن ان کے دلوں میں جہالت یا بڑے پن کا خناس تھا اس لیے انہوں نے انتظار کیے بغیر آپ کو ان الفاظ میں آوازیں دینا شروع کیں۔ ” یَا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا“ اے محمد ! ہمارے لیے باہر آؤ۔ رب ذوالجلال نے ان کے گستاخانہ انداز کی گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ آپ کے حجروں سے باہر آپ کو آوازیں دے رہے تھے ان میں اکثر بے سمجھ لوگ ہیں۔ اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود باہر تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ” خَیْرًا لَّہُمْ“ کے الفاظ استعمال فرما کر تمام لوگوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ دانائی اور احترام کا تقاضا یہی تھا اور ہے کہ سرور دو عالم (ﷺ) خود تشریف لاتے اور یہ لوگ آپ سے ملاقات کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اکثریت کو بے سمجھ قرار دیا ہے۔ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم آئندہ کے لیے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس حرکت کو معاف فرمانے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ اَتَانَا اَبُوْمُوْسٰی (رض) قَالَ اِنَّ عُمَرَ اَرْسَلَ اِلَیَّ اَنْ اٰتِیَہٗ فَاَتَیْتُ بَابَہٗ فَسَلَّمْتُ ثَلاَ ثا فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مَامَنَعَکَ اَنْ تَاْتِیَنَا فَقُلْتُ اِنِّیْ اٰتَیْتُ فَسَلَّمْتُ عَلٰی بَابِکَ ثَلَاثًا فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیَّ فَرَجَعْتُ وَقَدْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اِذَا اسْتَأْذَنَ اَحَدُکُمْ ثَلاَ ثا فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہٗ فَلْیَرْجِعْ فَقَالَ عُمَرُ (رض) اَقِمْ عَلَیْہِ الْبَیِّنَۃَ قَالَ اَبُوْ سَعِیْدٍ (رض) فَقُمْتُ مَعَہٗ فَذَھَبْتُ اِلٰی عُمَرَ (رض) فَشَھِدْتُّ) (صحیح البخاری : باب الاستئذان) ” ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری ہمارے پاس آئے انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر (رض) نے میری طرف پیغام بھیجا کہ میں ان کے ہاں پہنچوں۔ جب میں امیرالمؤمنین کے دروازے پر گیا، تو میں نے تین مرتبہ السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواب نہ دیا، تو میں واپس آگیا۔ بعدازاں عمر (رض) نے مجھ سے نہ آنے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں حاضر ہوا اور آپ کے دروازے پر تین دفعہ سلام کہا لیکن آپ کا جواب نہ پاکر میں واپس آگیا۔ کیونکہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ جب کسی کو تین بار اجازت طلب کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا آئے۔ عمر (رض) نے فرمایا : اس حدیث پر گواہ پیش کرو۔ حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوموسیٰ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ہم حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور میں نے گواہی دی کہ ابو موسیٰ ٹھیک کہتے ہیں۔“ ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) جب کسی کے دروازے پر جاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے اور سلام کہتے اس دور میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے۔“ (رواہ ابوداؤد : باب الاستیذان، قال الالبانی ہذا حدیث صحیح) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (ﷺ) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ) (رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (ﷺ) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا کسی نوک دار چیز کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو آنکھ پھوڑنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔“ مسائل: 1۔ جن لوگوں نے نبی (ﷺ) کے گھر کے باہر آپ کو آوازیں دیں ان کی اکثریت بے عقل تھی۔ 2۔ نبی محترم (ﷺ) کو دور سے آواز دینے والے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔